حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا ذوق جمال |
|
میں ہوں اور حشر تک اس در کی جبیں سائی ہے سرِ زاہد نہیں ،یہ سرسرِ سودائی ہے (۱) آنحضرت ﷺدائیں اور بائیں دونوں ہاتھوں میں انگوٹھی پہنی ہے امام ابودائود رحمۃاللہ علیہ نے مستقل باب قائم کر کے ثابت کیاہے کہ دائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہنی جائے تو بہتر ہے کیونکہ بایاں ہاتھ استنجاء وغیرہ کے لیے استعمال ہوتاہے لہٰذا بہتر ہے کہ دائیں میں پہنی جائے ۔ (۲) اگر انگوٹھی میں کوئی مقدّس نام رقم ہو تو اسے اتار کر بیت الخلاء میں جائیں ۔(۳) شمائلِ کبرٰی میں ابن ماجہ کے حوالے سے ہے کہ آپ ﷺانگوٹھی کا نگینہ ہتھیلی کی طرف رکھتے تھے تاکہ ریاکاری اور تکبّر کا ذریعہ نہ ہو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نیباب الخاتم فی الخنصرقائم کر کے ترجیح اس بات کو دی ہے کہ چھوٹی انگلی میں انگشتری پہنی جائے ۔تاکہ کم قیمت بھی ہو اور ایک طرف ہونے کی وجہ سے کاموں میں حرج بھی نہ ہو ۔یہ سنّت کی ایک حکمت ہے جو سمجھا دی گئی ورنہ ایک مسلمان جو عاشقِ صادقِ نبی ﷺہو اُسے تو حکمِ رسول ﷺہی کافی ہے۔ ؎ تدبیر کو مزاجِ مَحبّت میں دخل کیا ؟ جانکاہ اس مرض کی نہ کوئی دواکرو! دنیائے کفر نے اپنی تمام ترسائنسی معلومات و تحقیقات کے بعد یہ بھی تسلیم کر رکھا ہے کہ طبیبِ اعظم ﷺکے بنائے گئے نفع ونقصان کے اُصولوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ فرمانِ رسول ﷺمیں جب لوہے اور تانبے کی انگوٹھی سے منع کر دیا گیا ہے تو ہم مسلمانوں کو یہ یقین کرنا چاہیے کہ یہ دونوں دھاتیں بطور انگوٹھی نہ مرد کے لیے دُرست اورنہ عورت کے لیے ۔نبی ﷺنے ایک شخص سے جو پیتل کی انگوٹھی پہنے ہوئے تھا ، فرمایا:کہ کیا بات ہے مجھے تمہارے پاس سے بتوں کی بو آرہی ہے ؟(کیونکہ بت عام طور سے پیتل سے بھی بنائے جاتے ہیں )اس فرمان پراس شخص نے وہ انگوٹھی (اتارکر) پھینک دی ، پھر وہ دوبارہ آیا تو (اب ) وہ لوہے کی انگوٹھی پہنے ہوئے تھا ،تو آپ ﷺنے فرمایا:کہ کیابات ہے کہ میں تمہیں جہنّمیوں کازیورپہنے دیکھ رہاہوں ؟(مطلب یہ تھا کہ مسلمان کو ان چیزوں کی انگوٹھی پہننا جائز نہیں ) اس شخص نے وہ انگوٹھی (بھی اتار کر ) پھینک دی اور پوچھا :اے اللہ کے رسول!میں کس چیز کی انگوٹھی پہنوں ؟آپ ﷺنے فرمایا: چاندی کی (انگوٹھی پہن سکتے ہو ) لیکن مثقال پورا نہ ہو (یعنی ساڑھے چار ماشے سے کم ہی رہے )اُسے پہن لو۔(37)