حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا ذوق جمال |
|
مسواک کو پسند فرمایا٭غسل کے بعد خوشبو کا اہتمام ہو تا تھا (10)٭قضائے حاجت کے بعد خوشبو ضرور لگاتے تھے ٭مسلمان عورتوں کے لیے پاکی کے حُصول کے ساتھ خوشبو پسند فرمائی (11) ٭خوشبو کے ہدیہ کو واپس کرنا اچھا نہیں سمجھتے تھے(12) ٭احرام باندھتے وقت بھی خوشبو پسند تھی (13)٭دوسرے مسلمانوں میں سے بھی خوشبو کا آنا آپ ﷺکو بہت پسند تھا ٭بدبو سے مثلاً(لہسن اور پیاز و غیرہ کی بُو سے ) بچنے کی کو شش فرماتے تھے ۔(14)حضرت مُحمّد ﷺنے اُمّت کو سکھانے کے لئے خوشبو استعمال فرمائی ،آپ ﷺکے پسینے میں بھی خوشبو تھی ؎ ہفت اقلیم کے موتیوں سے گراں اِک اِک بوند تیرے پسینے کی اِس شعر کی صداقت کی گواہ ایک حدیث بھی ہے حضرت اُمِ سلیم رضی اللہ عنہا تو ایک دن آپ ﷺکا پسینہ اپنی عطر کی شیشی میں ڈال رہی تھیں حضور ﷺبیدار ہوئے پو چھا ! کیا کر رہی ہو ؟عرض کی :عطر دانی میں آپ کا پسینہ ڈال کر خوشبو میں اضافہ کر رہی ہوں (15)اسی روایت میں ہے کہ انہوں نے فرمایا:آنحضور ﷺکے جسمِ اطہر کی مہک سب سے زیادہ مُعَطّر ہے ۔آ پ ﷺکی عاداتِ طیّبات اپنی جگہ ایک خوبصورت و زندہ دل ذوق کی عکاس ہیں ۔ حُضور سید المرسلین رحمۃللعالمین ﷺکو پسند تھاکہ عورتیں کم خوشبوزیادہ رنگ اور مر د زیادہ خوشبوکم رنگ والا عطر استعمال کریں ۔تاکہ مردوں کی خوشبو دُور تک پھیلے اور خواتینِ اسلام کی مہک بس ان ہی محرم مردوں تک محدود رہے جو اس کے محافظ اور محترم ہیں یہ حضرات خاتون کے محرم(یعنی شوہر باپ،بیٹااور حقیقی بھائی)ہی ہو سکتے ہیں ۔آپ ﷺکے عمل کی وجہ سے سراور داڑھی میں عطر کو مسنون قرار دیا گیا ہے (16)کبھی حضرت محمد ﷺمانگ میں بھی خوشبواستعمال فرماتے تھے ۔(17)مختلف طریقے سے مشک بار چیزوں کا استعمال آپ ﷺسے منقول ہے، اسی لیے عطر یا کسی بھی خوشبو کا لگانا کسی خاص انداز سے منقول و مسنون نہیں ہے ،تاہم اتنا یاد رہے کہ دائیں طرف پہلے لگائے تو بہت اچھا ہے ۔ اس لیے کہ آپ ﷺاچھے کاموں میں دائیں طرف کو پسند فرماتے تھے (دیکھیے عنوان نمبر۴۹)داڑھی پر خوشبو لگانا اور وضو کے بعد اس کے استعمال ذکر بھی احادیثِ طیبہ میں آتاہے ۔ قارئین !ظاہری خوشبو کے ساتھ ایک باطنی خوشبو بھی ہوتی ہے جس کا تعلّق حیاء ،دماغی پاکیز گی اور حُسنِ اخلاق کے ساتھ ہے ، اخلاقی خوشبو کی صفات نبی اکرم ﷺمیں سب سے زیادہ پائی جاتی تھیں ، ان ہی عطر بیزادائوں کی گواہی