حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا ذوق جمال |
|
اس قسم کے اقدامات اور اخلاقیات کا اثر یہ ہوا کہ (۱)یہ مُشرکین اپنے دل میں اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں اچھے تاثّرات لے کر گئے (۲)مکّہ میں جاکر ان کمزور مسلمانوں کے لیے نرم گوشہ ہوگئے جو ابھی اُمُّ القُریٰ میں رہنے پر مجبور تھے اورمدینہ نہیں آسکتے تھے ۔(۳)مکّہ فتح ہوا تو یہ لوگ اسلام میں آگئے،اس لیے کہ اسلام کی ایک خوبصورت تصوِیر ان کے سامنے تھی ۔آج بھی حُضور ﷺکے فرمان کے مطابق جیلوں میں وہ حُسن پیدا کیا جائے ،جس کی عملی صورتیں حُضور ﷺنے پیش فرمائی ہیں ، تو جیلیں ’’اِنسان گر‘‘بن جائیں اور جرائم کی شرح کم ہوتی جائے ؎ جس کی ادا ،ادا پہ ہوا نسانیت کو ناز مل جائے کا ش ایسا بشر ڈھونڈتے ہیں ہم یہاں بات روٹی کے ان ٹکڑوں اور معمولی سالن کی نہیں جو ان قیدیوں کو دیا گیا موضوع اور عنوان وہ رنگ و نور ہے جو ایک مسلم معاشرے کے افراد اور مسلمان حُکومت میں ہونا چاہیے ،حضرت ثُمامہ بن اُثال رضی اللہ عنہ کسی قریبی علاقے کے سردار تھے اور مسلمان ان کی ریشہ دوانیوں سے تنگ تھے ۔ حُضور ﷺکے فرمان پر جب اس قیدی کے ساتھ مہمانوں کے سا سلوک کیا گیا تو اس کا نتیجہ یہ دیکھاگیا وہ آزاد ہوتے ہی غُسل کر کے حاضرِ خدمت ہوئے اور عرض کی: یارسول اللہ! اس وقت آپ ﷺکے دین سے بڑا دین ،آپ کے شہر سے اچھّا شہراور آپ سے زیادہ پیاری شخصیّت میرے دل میں کوئی نہیں ہے،مُجھے دائرئہ اسلام میں داخل فرمالیجیے !اور پھر حضرت ثُمامَہ رضی اللہ عنہ اہل اسلام کے مُعین و مدد گار بن گئے ۔یہ ہے اس حُسن کی راعنائی جو سیدنا محمّد ﷺکے اس فرمان سے مُنّو ر ہوتی ہے ،جس میں آپ ﷺنے فرمایا :’’اَحْسِنُوااِسَارَہٗ‘‘ان کی قید اچھی کر و!کچھ ایسا ہی منظر حضرت سَفَّانَہرضی اللہ عنہا دخترِحاتم کے اسیر ہو جانے پہ پیش آیا،ہمارے حضرت محمد ﷺنے ان کو مسجدِنبوی ﷺکے قریب حُجرے میں ٹھہرایا ،ان کا کیس آنحضور ﷺنے خود سنا،انہیں لباس ،کھانا دیا اور کسی اچھّے وفد کے ساتھ ان کو ان کی قوم کے ساتھ وطن روانہ کیا،اس حُسنِ خصائل کی وجہ سے وہ پورے قبیلے کے ساتھ مسلمان ہو گئی ۔(64) ؎ جہاں تک کہ علم ونسب وکمال ہر ایک فن میں ماہر ہیں وہ خوش خصائل ﷺ