اسکو کثیر مانتے ہیں کیونکہ کم از کم قلتین تو ضروری ہوگا لہذا وقوع نجاست سے ناپاک نہ ہوگا۔ البتہ عند الحنفیہ چونکہ بیر بضاعہ کا پانی کثیر نہیں ہوسکتا لہذا انکو یہ بھی کہنا ہوگا کہ وہ پانی جاری تھا۔ ایک طرف سے آکر دوسری طرف کو نکل جاتا تھا اور باغات کو سیراب کرتا تھا چونکہ وہ ماء جاری تھا لہذا وقوع نجاست سے ناپاک نہ ہوتا تھا۔ چنانچہ امام طحاوی نے واقدی سے اسکے جاری ہونیکی روایت نقل کرکے اس جواب کو تام کیا ہے اور بنظر انصاف یہ روایت قوی ہے اگرچہ بعض نے اس میں بہت سے خدشات کئے ہیں اور حنفیہ نے انکو جواب دیئے ہیں۔ خلاصہ اصل جواب منجانب حنفیہ یہ ہوگا کہ حدیث میں ایک خاص قسم کے پانی کی نسبت حکم فرمایا گیا ہے اور وہ جاری تھا پس وہ وقوع نجاست سے ناپاک نہ ہونا ہمارے مذہب کے مخالف نہ ہوا۔ جواب کا دوسرا طرز وہ ہے جس کو حضرت شاہ ولی اللہ صاحب دہلوی ؒ نے بھی نقل فرمایا ہے کہ یہ بات ظاہر ہے کہ جس پانی میں اس قد کثرت سے نجاسات گرتی ہوں ممکن نہیں کہ وہ متغیر نہ ہو کیونکہ ایک چوہے اور چڑیا کے گِر جانے سے پانی دو تین روز میں بدبودار ہوجاتا ہے، پس جس میں کلاب اور ثیاب الحیض وغیرہ گرتے ہوں کیسے ممکن ہے کہ متغیر نہ ہو اور تغیر کے بعد کوئی ادنیٰ طبیعت کا آدمی بھی ہرگز اسکو استعمال نہیں کرسکتا کراہت شرعی ہو یا نہ ہو کراہت طبعی سے خالی نہیں پھر کب ہوسکتا ہے کہ جناب رسول ﷺ اسکا استعمال کرتے ہوں۔ حالانکہ روایت میں موجود ہے کہ سائل نے بیر بضاعہ کی نسبت سوال کرکے عرض کیا کہ آپ کے لئے بھی اسی سے پانی لایا جاتا ہے۔ اس تقریر سے معلوم ہوگیا کہ یہ امر نہایت بعید ہے کہ بیر بضاعہ میں اس قدر کثیر نجاست گرنے کے بعد آپ ﷺ اس کا متغیر اللون والرائحہ پانی استعمال کرتے ہوں۔ البتہ یہ بات اقرب الی الفہم ہے کہ وہ کنواں چونکہ زمین کے ساتھ ہموار تھا اس میں خون آلودہ ثوب اور کلاب گرجاتے تھے اور حسبِ قاعدہ شرعی انکو نکال کرکا کنواں پاک کردیا جاتا ہو۔ لیکن چونکہ طہارت بیر خلاف قیاس ہے لہذا سائل کو شبہ رہا کہ گو ناپاک پانی نکل گیا لیکن زمین اور دیواریں اور گارا کیچڑ تو ناپاک ہی رہا ضرور اس میں نجاست رہتی ہوگی پس آپ ﷺ سے سوال کیا کہ ایسے کنویں کا پانی جو اس طرح پاک کیا گیا ہو موجب طہارت اور قابل استعمال جناب رسالت مآب ﷺ ہوسکتا ہے پس آپ ﷺ نے جواب دیا کہ اس قسم کے شبہات قابل توجہ نہیں پانی اس قسم کے وساوس سے ناپاک نہیں ہوتا جس قسم کے وسوسے تم کو وارد ہوئے ہیں۔لایُنجسہ سے مطلق اور بالکلیہ نفی مقصود ومنظور نہیں کہ کوئی نجاست کسی قسم کے پانی کو نجس ہی نہیں کرتی بلکہ مقصود یہ ہے کہ جس قسم کے شبہات تم کو وارد ہوئے ہیں (یعنی دیواروزمین چاہ کی ناپاکی) اس قسم کی کوئی شے پانی کو ناپاک نہیں کردیتی چنانچہ حضرت میمونہ ؓ نے جب عرض کیا کہ آپ ﷺ اس پانی سے وضوء نہ کریں یہ میرا بقیہ غسل ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ان الماء لایجنب وہاں بھی یہ مراد نہیں تھا کہ پانی بالکل ناپاک ہی نہیں ہوتا اسیطرح یہاں بھی یہی مطلب ہے کہ اس قسم کی باتوں سے وہ