علم حدیث کا موضوع خود ذاتِ بابرکات رسول اللہ ﷺ ہے۔ پس علمِ حدیث کیا ہی مبارک و محترم ہے کیونکہ اس میں آپ ہی کے حالاتِ طیبات مذکور ہوتے ہیں۔باقی حالاتِ صحابہ بھی گویا آپ ہی کے حالات ہیں۔یا یہ کہ تبعًا بیان ہوتے ہیں۔ غایت اسکی بجز عمل اور (تیقّظ عن الغفلۃ) اور کیا ہوسکتی ہے۔
أنا أسمع: یہ اس موقع میں مستعمل ہے کہ یہ قائل سنتا ہو اور اس کے استاد کا کوئی دوسرا شاگرد قراء ت کر تا ہو۔
’’أنا‘‘ اشارہ اور اختصار ہے’’ اخبرنا‘‘ کا اور’’نا ‘‘ اختصار ہے’’ حدثنا ‘‘ کا۔ استاد پڑھ کر سُناوے تو’’ تحدیث‘‘ کہتے ہیں اور اگر شاگرد پڑھے تو’’ اخبار‘‘ کہتے ہیں بعض حضرات اس میں کچھ فرق نہیں کرتے ایک کو دوسرے کی جگہ استعمال کرتے ہیں۔
قالوا:’’ اخبرنا‘‘ بلفظ جمع اس لئے کہا کہ کروخی کے تین استادہیں: قاضی زاہد، شیخ ابوبکر اورشیخ ابو نصر ۔ أقربہ الشیخ الخ محمد عبدالجبار کہتے ہیں کہ میں نے اپنے استاد ابو العباس محمد بن احمد کو حدیث مع الاسناد سنائی تو انہوں نے اقرار کیا۔ یعنی ابوالعباس نے جو ثقہ اور امین تھے نعم وغیرہ فرمایا یعنی جو کچھ تم نے سُنایا درست ہے میں اسکی توثیق و تصحیح کرتا ہوں۔