مثال میں ہوگئی ہو۔ یاابن صیاد رہتا تو عرب ہی میں ہو لیکن تھوڑی دیرکے لئے جزیرہ میں اصلی حالت کے ساتھ ٹھہرا دیا گیا اور پھر واپس کردیا گیا ہو۔ اور ایک شخص کا مواضع متعددہ میں پایاجانا بھی عندالمحققین جائز ہے۔ پھر تو کچھ خدشہ ہی نہ رہے گا۔یہ تاویلات وہ لوگ کریں گے جو ابن صیاد ہی کودجال فرماتے ہیں اور جو کہتے ہیں کہ دجال دوسرا ہے ان کو تاویل کی ضرورت نہیں۔ علماء کے ہر دوطرف اقوال ہیں۔ بعض اسی کو دجال فرماتے ہیں اور دلائل بیان کرتے ہیں اور بعض اس کو دجال نہیں فرماتے چنانچہ ان کے بھی دلائل حدیث سے ماخوذ ہیں۔
مامن نفس منفوسۃ: میں یا تو علی ظہر الارض کی قید کا لحاظ کیاجائے یا یہ تاویل کی جائے جو ابن عمر کرتے ہیں کہ انقضائے قرن مراد ہے اب ایک دوکازندہ رہنا منافی نہیں۔ جمہور محدثین حیات خضر علیہ السلام کے قائل نہیں۔
زمانہ حضرت عمر: اورزمانہ فتنہ میں جو باب حائل تھا وہ وجود عمر تھا بعض روایات میں ہے کہ حذیفہ سے پوچھا گیا کہ حضرت عمر نے اس کو سمجھا بھی یا نہیں انہوں نے فرمایا کہ وہ خوب سمجھتے تھے۔
الا اخبرکم بخیرکم الخ: صحابہ نے یا تو سکوت اس واسطے کیا کہ سماعت کو مستعد ہوں اور ظاہر یہ ہے کہ سکوت اس لیے کیا کہ وہ سمجھے کہ آپ ﷺ ہم موجودہ لوگوں میں سے خیروشر کو بتلاویں گے اور جولوگ شر ہوں گے ان کی رسوائی ہوگی۔
من ترک عشر ماامر بہ الخ: مراد اس سے فرائض شائعہ (صوم وصلوٰۃ حج وزکوٰۃ مثلا) کے ماسوا ہیں جیسے نفع رسانی مسلمین اور خوف وخشیت اور تقویٰ وغیرہ۔ بعض کہتے ہیں کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر مراد ہے غرض فرائض کے ماسوا احکام مراد ہیں مطلقا اور دوسرے فرقہ نے ماسوائے فرائض میں سے بھی خاص امر معروف ونہی منکر کو لیا ہے اور ظاہر ہے کہ ایسے امور کے عشر کو بھی ادا کرنے سے ہلاکت سے بچ سکتاہے۔