ﷺ نے رفع نزاع کے لئے کرادیا مطلب یہ نہیں کہ ہر ایک قضیہ میں قاضی نصف دین کو معاف کرادیا کرے اور مدیون سے نصف فورا دا کردے۔ اس قصہ کو بطور تبرع وفضل ہونے کو سب مانتے ہیں اور تخصیص پر حمل کرتے ہیں حالانکہ تخصیص بہت لاچاری کو کی جاتی ہے۔ اسی طرح خیار مجلس تبرعا وفضلا ہے کہ مسلمان کے مناسب یہ ہے گوواجب یہ امر نہ ہو۔ شراح حرہ کا قصہ بھی اسی قسم کا ہے کہ انصاری اور ابن زبیر ؓ آپ ﷺ کے پاس منازعت لائے آپ ﷺ نے ابن زبیر ؓ کو فرمایا کہ پانی آجانے کے بعد پھر پانی کو انصاری کی طرف چھوڑدینا۔ انصاری اس کو خلاف انصاف سمجھا اور کہا کہ:’’ ان کان ابن عمک۔‘‘ آپ ﷺ کو غصہ آیا اور فرمایا کہ احبس الماء فاذ ا وصل الی الجدار الخ (او کما قال) سب کہتے ہیں کہ حکم اولا تبرعا تھا اصلی حکم بعد کاتھا جوآپ ﷺ نے غصہ کی وجہ سے ظاہر فرمایا۔ خدا انصاری پررحم کرے جس نے دوچار لفظ کہہ کر اصلی حکم ظاہر کرادیا ورنہ امام صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ تو غالبا پھر بھی اصلی حکم لیتے اور دوسرے لوگ ظاہرحدیث کو دیکھ کر امام رحمہ اللہ تعالیٰ کے سرہوتے۔ غرض اسی طرح امور جزئیہ کو قواعد کلیہ کے مطابق ہر کوئی بناتاہے البتہ بعض صاحب ظاہری موقع پر ایسا کرتے ہیں مگر ذرا سے خفاء پر اس کو چھوڑ بیٹھتے ہیں۔ امام صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ قواعد کلیہ کالحاظ رکھتے ہیں۔ بعض قرائن بھی موجود ہیں جن سے اس خیار کو تورع وفضل پر حمل کرنے کی تائید ہوتی ہے مثلا ابو برزہ اسلمی ؓ کی روایت اس کے صریح معنی اب یہ ہے کہ تبرع اور افضل یہ ہے کہ فرس کو واپس کردے کیونکہ بھائی مسلمان کا مسلمان پر حق اور اس میں ابھی تک کسی کا کچھ نقصان نہیں ہو المسلم اخو المسلم لایسلمہ ولا یخذلہ پس اس کو علی وجہ التبرع لینے سے ابو برزہ اسلمی ؓ کی روایت کے معنی بھی درست بن سکتے ہیں بلکہ اب تو یہ روایت حمل علی التبرع کے لئے دلیل اور قرینہ ہوگئی اور ایک قرینہ وہ روایت ہے کہ جو ابوداؤد ونسائی میں ہے مالم یتفرقا او یختارا ثلاثا اس سے بھی وہی تبع وفضل مراد ہے ورنہ اختیار ثلاثہ کی شرط تو کسی کے نزدیک بھی نہیں۔ اس پر تو شوافع کا عمل بھی نہیں بلکہ اختیار مرۃ کو فرماتے ہیں حالانکہ اختیار مرۃ کی کہیں تصریح نہیں بلکہ یا تو مطلق ہے یا ثلاثا۔ اب تو شوافع کو شاید تنبہ ہو اور ثلاثا کو چھوڑ کر مرۃ لینے کی خطا پر وقوف ہو۔ ہاں اگر ہر دوجگہ تبرع لیاجائے تو پھر کسی روایت کا ترک عمل لازم نہیں آتا۔ ابن عمر ؓ کا فعل بھی صحیح ہوگا اور ابو برزہ ؓکا فتوی بھی درست ہوگا کیونکہ یہ حد عدل میں داخل نہیں بلکہ فضل وتبرع میں داخل ہے بیشک بیع اس سے پہلے تام ہوچکی لیکن تبرع وفضل مسلمان کے لئے یہ ہے کہ اخ مسلم کے لئے تفرق عن المجلس تک خیار باقی رکھے۔ ابن عمرؓ اسی لئے کھڑے ہوجاتے کہ اگر مجلس ہی میں اس نے فسخ کرنا چاہا اور میں نے انکار کیا تو خلاف تبرع ہوگا ہاں بعد القیام والتفرق تو تبرعا بھی حق فسخ نہیں۔ غرض امام صاحب کے مناسب یہی جواب ہے کیونکہ وہ تمام روایات وقواعد کلیہ کو پیش نظر کرکے ایک ایسا حکم فرماتے ہیں جس میں کسی روایت کا ترک لازم نہ آئے بلکہ سب پر عمل