نہیں کہ یہ موافقت کہیں صرف اسی جزو میں تو نہیں جس میں امام صاحب بھی موافق ہیں یعنی عدم اولویت۔ بعض دفعہ ایسے تھوڑے اشتراک سے بھی ترمذی علماء کو اپنا موافق فرمادیتے ہیں۔ شوافع کی موافق جو روایات ہیں وہ حنفیہ کو مضر نہیں۔ ہاں یہ بات ہے کہ حنفیہ کی مستدل وہ روایات نہیں بن سکتیں مگر مخالفِ مدعا بھی نہیں ۔ لیکن حنفیہ کی روایتیں شوافع کی مخالفِ مدعا اور مضر ہیں اور انکو ترک یا تاویل سے چارہ نہیں۔ اول تو تعارضِ احادیث کے وقت قیاس سے ترجیح دی جائے تو بھی حنفیہ کا مذہب ثابت ہوتا ہے کیونکہ محض عقدِ نکاح میں کوئی شے منافی احرام نہیں۔ اور اگر محدثین کا طرز لیا جائے توآپﷺکے محرم ہونیکی روایت نہایت قوی واضح ہے بہ نسبت حلال ہونیکی روایت کے اگرچہ صحیح وہ بھی ہے۔ نیز یزید بن الاصم سے ابنِ عباسؓ کا تفقہ اور حفظ میں زیادہ ہونا مخفی نہیں اور یہ بھی میمونہ ؓ کے بھانجے ہیں۔ اس طرز پر حنفیہ کا مذہب ثابت ہوتا ہے پس ممانعت سے مراد سدّ ذرائع اور عدم اشتغال بمثل النکاح ہے ورنہ حدیث عثمان ؓ جس میں لاینکح [یعنی کسی اور کا نکاح بھی نہ کرے۱۲۔]بھی ہے اور بعض روایات جن میں لایخطب بھی ہے شوافع کے مخالف ہونگی اور اس تاویل کے سوا اسکے اور کچھ معنیٰ نہیں بن سکتے۔ یہ تو ظاہر ہے کہ قصّہ عمرۃ القضاء کا ہے اور سَرِف آپﷺکو دو دفعہ رستہ میں پڑا ہے۔ ایک دفعہ تشریف لے جاتے ہوئے اور ایک مرتبہ واپسی میں ۔ پس اگر کسی طریقہ سے ثابت ہوجائے کہ یہ نکاح بوقت واپسی ہوا ہے تو شوافع کا قول بلا شک وشبہ یقینی ہوجائے اور جس طرح ہوسکے مخالف روایات کی تاویل کرنی پڑے۔ کیونکہ جب آپﷺبعد فراغت حج وہاں کو گذرے اس وقت آپ ﷺکا حلال ہونا ظاہر ہے اور اگر یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ جائے کہ آپﷺحج سے پہلے سَرِ ف میں نکاح کرچکے ہیں اور یہ واقعہ مدینہ سے مکہ کو تشریف لے جانے کے وقت کا ہے تو حنفیہ کا قول یقینی وقطعی سمجھنے کے قابل ہوگا اور ان کی مخالف روایات کی خواہ مخواہ بھی تاویل کرنی پڑیگی۔ خواہ بعید تاویل ہو یا قریب۔ اب روایات صحاح میں سَرِف کی تو تصریح ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں ہاں قرائن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ مدینہ سے آتے وقت کا اور حج سے پہلے کا قصّہ ہے جبکہ آپﷺبارادہ مکہ تشریف لے جارہے تھے کیونکہ روایات میں راوی اس بات کو تعجب سے بیان کرتے ہیں کہ عجیب اتفاق ہے کہ حضرت میمونہؓ کا نکاح بھی سرف میں ہوا اور بنا بھی وہیں ہوئی اور دفن بھی وہیں ہوئیں۔ اس سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ یہ تین واقعے تین دفعہ کی اقامت میں واقع ہوئے ورنہ ایک جگہ رہتے رہتے وہیں پر نکاح وبنا ووفات ہوجائے تو کوئی تعجب کی بات نہیں۔ ہاں اگر یہ تین واقعے تین وقتوں کے ہوں تو واقعی قابل تعجب اور عجیب اتفاق ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نکاح جاتے وقت ہوا اور بنا مکہ سے واپسی کے وقت ۔ علاوہ ازیں غیر صحاح میں روایت ہے جب آنحضرت ﷺ مکہ میں تین روز رہ چکے تو کفار مکہ نے حضرت علیؓ وغیرہم سے کہا کہ اپنے صاحب سے کہدو کہ آپﷺحسب وعدہ واپس ہوجائیں۔ صحابہ نے