علی النبی ﷺ بھی ثابت ہے ۔ اور آخر زمانہ کا حال احادیث میں آتاہے کہ یہودی و نصاری کثرت سے مقتول ہونگے یہا ں تک کہ جس شجر و حجر سے پناہ لیں گے وہ پکاریگا کہ یا مسلم ھذایہودی من ورائی فاقتلہ معلوم ہوتاہے کہ انکا حاسہ بڑا قوی ہے جو مسلم وغیر مسلم میں تمیز اور نبی اور غیر نبی میں فرق کر لیتے ہیں حیوانات کے بعض حواس انسان سے قوی ہوتے ہیںلیکن ان جزئیات سے فصیلت کلی علی الانسان ثابت نہیں ہوتی غرض حنین جذع کو حقیقی معنی پر حمل کرنے میں کوئی اشکال نہیں ۔
جلوس بین الخطبتین سنت ہے ایک خطبہ سے بھی واجب اداہو جاتاہے مگر مسنون یہ ہے کہ دو خطبے ہوں اور درمیان میں جلوس ہو ۔ اسکی عادت کر لینا کہ ہمیشہ ایک ہی خطبہ پر اکتفاکرے اورصرف واجب ادا کرے سخت مکروہ وخلاف سنت ہے البتہ امام صاحب کے نزدیک جواز میں کلام نہیں ۔ خطبہ بھی بعد الزوال ہونا چاہیے ۔
خطبہ منظوم مکروہ ہے اور اردو میں بھی مکروہ ہے صحابہ نے کبھی دوسری زبان میں خطبہ نہیں پڑھا حالانکہ امصار بعیدہ میں گئے اور وہاں خطبہ پڑھنے کا اتفاق ہوا جہاں سب سامعین عربی زبان سے ناواقف تھے ۔ بعض صحابہ عجمی فارسی تھے اور عربی کے سوا دوسری زبان پر قادر تھے مگر ہمیشہ عربی میں خطبہ پڑھتے تھے ۔ ظاہری مصلحت کی وجہ سے اس حکم کو بدل دینا سراسر نادانی ہے ۔ کونسی ایسی چیز ہے جس میں کوئی جانب خیر و مصلحت کی نہ ہو ۔ حتی کہ کفر صریح میں بھی بعض نفع ہوتے ہیں کیونکہ ممکنات میں ہمیشہ خیر وشر کی دونوں شقیں موجود ہوتی ہیں غلبہ کا اعتبار ہوتاہے پس اگر اردوزبان میں خطبہ پڑھنے میں بعض وجوہ خیر نظر آویں تو یہ ضرور نہیں کہ اسی کو اختیار کر لیا جائے ۔ یہ عذر کبھی قابل سماع نہیں کہ عربی کے خطبہ کو لوگ سمجھتے نہیں حالانکہ غرض اس سے وعظ و نصیحت ہے کیونکہ قرآن و حدیث کے مقابل میں کوئی کسی کو حکم بدل نہیں سکتا بدعت کی جڑ یہی ہے کہ اپنی طرف سے کوئی مصلحت سمجھ کر خلاف سلف صالحین و نصوص واردہ کوئی فعل اختیار کر لیا جائے ۔ بدعت دفعتا نہیں آتی اسی طرح آہستہ آہستہ آتی ہے اہل فہم پہلے سے سمجھ جاتے ہیں اور روک دیتے ہیں دوسرے لوگ بعد میں متنبہ ہوتے ہیں ۔اگر وعظ و نصیحت ہی کرنا ہے تو دوسرے اوقات میں بزبان اردو نصیحت کرنے اور سمجھانے کو کس نے منع کیاہے خطبہ پڑھ کر ساتھ ساتھ ترجمہ کرنا بھی اچھا نہیں گو فرض تو ادا ہو ہی جائے گا اور اردو اشعار بالکل بدعت ہیں۔
باب
قراۃ علی المنبر اور جلوس بین الخطبتین اس قسم کے امور کو ابو حنیفہ بھی مستحب و بہتر لکھتے ہیں کلام اس میں ہے کہ یہ امور ضروری اور واجب ہیں یا نہیں امام صاحب ان کو ضروری نہیں کہتے شافعی واجب فرماتے ہیں استقبا ل امام بہتر ہے لیکن