سے شروع ہوتی ہیں اور تا شروع خطبہ ہوتی ہیں ۔ اب ساعات سے مراد اصطلاحی ساعات ہونگی کیونکہ اکثر صبح سے زوال تک چھ ساعتیں ہوتی ہیں تھوڑے سے فرق کا اعتبار نہیں ۔ آپ نے بھی فرمایا ہے کہ جمعہ بارہ ساعات کا ہوتا ہے ۔ بس جب صبح سے خطبہ تک چھ ساعات ہو ئیں تو ہر ایک ساعت میں بہ ترتیب ثواب موعود ملتارہے گا ۔ اس روایت میں گو پانچ کا ثواب مذکور ہے ۔ لیکن نسائی میں روایت ہے جسمیں چھ ساعات مذکور ہیں اور کبش کے بعد بط اور فرمایا ہے اس حساب سے ہر ایک ساعت کا ایک ثواب ہوگا ۔ گو آسان تو قول اول ہے۔ لیکن اشارہ حدیث دونوں طرف ہیں ۔ بکر کے معنی صبح کو جانے کے ہیں ۔ ادھر بعض روایات میں ہجر آتاہے جسکے معنی دوپہر کو جانے کے ہیں ۔
وغیر ذلک من الاشارات ۔ ترک جمعہ تھاونا سے یہ مراد ہے کہ پست ہمتی اور کسل سے جمعہ چھوڑدیا ورنہ نہ اہانت شعائر اللہ تہاون باحکام الشریعت تو کفر ہے ۔
کم یوتی الی الجمعہ ۔ اختلاف علماء کو تو خود ترمذی بیان کرتے ہیں لیکن یہ معلوم ہو گیا کہ قباء میں جمعہ نہ ہوتا تھا ۔ جو لوگ جمعہ کو من اواہ اللیل پر واجب کہتے ہیں ۔ انکی حجت حدیث ہے گو ضعیف ہے اور جو لوگ من سمع النداء پر واجب کہتے ہیں انکی کوئی دلیل نہ تھی لہذا ترمذی نے من اواہ اللیل کی روایت کو ناقابل اعتبارثابت کر کے کان لم یکن کر دینا چاہا ہے ۔ امام صاحب صرف اہل شہر اور اہل فناء شہر پر واجب فرماتے ہیں دور کے لوگ اگر ادا کریں تو سبحان اللہ لیکن ان پر ضروری اور واجب نہیں ۔ باقی اہل قباء کو امر للوجوب نہ تھا بلکہ تحصیل ثواب کے لئے فرمایا گیا تھا ۔ چنانچہ اہل قبا کہتے ہیں کہ ہم نوبت بہ نوبت جایا کرتے تھے قریہ میں اگر جمعہ کیا جائے تو ادا نہیں ہوتا کیونکہ نہ نفس وجوب ہے نہ وجوب ادا بخلاف مریض و مسافر اہل قری کے جو جمعہ میں شہر میں حاضر ہوں کہ وہاںوجوب ادا تو ہے گو نفس وجوب نہ تھا ۔ شہر کی تعریف جامع مانع نہیں ہو سکتی کیونکہ وہ امر بد یہی ہے ۔ فقہاء حنفیہ جو مالم یسع اکبر مساجدہ یا یوجد فیہ ما یحتاج الیہ مصر کی تعریف میں کہتے ہیں یہ صرف علامات ہیں اگر حقیقی تعریف یہ ہو تو مکہ مکرمہ سے نقض لازم آتاہے کیونکہ مالا یسع کے مطابق وہ شہر نہیںرہتا اسکی مسجد میں تو آفاقی معہ اہل شہر کے سما کر پھر بھی جگہ رہ جاتی ہے ۔ امام ابو یوسف دس ہزار پر جمعہ کا فتوی دیتے ہیں ۔
وقت جمعہ عند الجمہور بعد الزوال ہے گو ظہر کی طرح یہ بھی مثل و مثلین تک باقی رہتا ہے لیکن بہ نسبت ظہر کے اسمیں تعجیل اولی و مسنون ہے ۔ بعض علماء نے اعادہ کا حکم نہ فرمایا کیونکہ اس طرف بھی دلیل ہے ۔ خطبہ منبر پر مسنون ہے تین زینے ہوں اگر منبر نہ ہو تو شے مرتفع سے سنت ادا ہو جاتی ہے ۔ جذع کا رونا حقیقی معنی پر محمول ہے کیونکہ کوئی استحالہ نہیں گو خلاف عادت ہے اور اسی کو معجزہ کہتے ہیں کہ خلاف عادت ہو اور ممکن ہو دیگر روایات سے ثابت ہے کہ وہ بچوں کی طرح سبکتاتھا حس وحواس ہر شے میں موجود ہے کسی میں زیادہ ۔ آپ کا درختوں کو بلانا اور انکا حاضر ہونا ثابت ہے ۔ سلام احجار