قضاء سنن کو قبل الطلوع جائز فرماتے ہیں حنفیہ لا اذًا کے معنی فلا تفعل اذًا فرماتے ہیں اوردرحقیقت دونوں احتمال مساوی ہیں۔ حدیث پر ہر دونوںفریق عمل کرتے ہیں صرف معنیٰ اور مراد میں اختلاف ہے۔ اگرکسی وجہ سے ایک معنیٰ کوایسی ترجیح ہوجائے کہ دوسرے جانب کا شک نہ رہے تو پھر ما بین الامامین اسی پر اتفاق ہوجائے کیونکہ حدیث پر تو سب عمل کرنا چاہتے ہیں۔ اجمال معنیٰ کی وجہ اختلاف ہوگیا شوافع کہتے ہیں کہ فلا اذًا آپ ﷺ نے ان کے اس عذر کو سُنکر فرمایا کہ سنت قضاہوگئی تھی پس یہی مراد ہوگا کہ خیر کچھ مضائقہ نہیں حنفیہ کہتے ہیں کہ آپ نے سنتوں کو بھی منع فرمادیا لیکن فلا اذًامیں بحث کرنے سے پہلے مناسب ہے کہ آپ کے قول اصلٰوتان معًامیں غور کیا جائے کہ اس سے آپ ﷺ کی کیامراد ہے پھر اسکا مطلب بھی مفہوم ہوجائے گا ظاہر ہے کہ آپ ﷺ بھی یہی سمجھے تھے کہ سنتیں قضا کرتے ہیںکیونکہ دوسری نماز کا کوئی موقع اسوقت نہ تھا اور جو امر معروف ومتبادر ہوتا ہے ذہن اسی طرف جاتا ہے اسوقت کوئی نمازمعمول ومروج نہ تھی، پس ضرور آپ ﷺ کو سنت کا خیال ہواہوگا۔ باقی اب صحابی ؓ کا بھی اسی کو بیان کرنا یہ اقرا خطا ہے کہ بیشک مجھے غلطی ہوئی۔ سنتیں پڑھتا تھا یہ نہیں کہ آپ ﷺ خلاف واقعہ سمجھے تھے اور اب اسکی اطلاع دینی مقصود ہے یہ بعینہٖ اسی طرح کا واقعہ ہے کہ آپ ﷺ ایک شب بقیع میں تشریف لے گئے اور حضرت عائشہ ؓ دل میں کچھ خیال فرماکر پیچھے گئیں اور آپ ﷺ سے پہلے جلد واپس آنے کے خیال سے تیز چلیں اور دم چڑھ گیا۔ آپ ﷺ نے تشریف لاکر پوچھا کہ اے عائشہ ؓ یہ شخص جو میرے سے آگے دوڑتا تھا کون تھا کیا تم تھیں کیا تم کو یہ خوف ہوا تھا کہ اللہ ورسول ﷺ تم پر ظلم کریگا پس اسکے جواب میں حضرت عائشہ ؓ نے یہی فرمایا کہ مجھ کو شبہ اورعار ہوئی کہ آپ ﷺ کسی اور اہل ِ بیت کے یہاں تشریف لئے گئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ آنحضرت ﷺ کے ان یحیف فرمانے کا بھی وہی مطلب تھا جس کو عائشہ ؓ نے بیان کیا۔ پس یہاں اطلاع واقعہ مقصود نہ تھی بلکہ صرف اقرار خطامنظور تھا پس اصلٰوتان معًا۔آپ ﷺ نے یہی سمجھ کر فرمایا کہ یہ سنت پڑھتے ہیں انہوں نے خطا کااقرارکیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ بس اب ایسا نہ کرو۔ شوافع نہیں کہہ سکتے کہ آپ ﷺ کو تکرارِ فرض کا شبہ ہوا کیونکہ جب امامت معاذ ؓ میں تکرارِ فرض کا جواب دیتے ہیں تو شوافع اسکے ثبوت میں کلام کرتے ہیں۔ اگر مان بھی لیا جاوے تو تکرارِ فرض صحابہؓ وہاں کرتے تھے کہ کوئی مصلحت یا نفع خاص ہوتا تھا جیسا کہ معاذ ؓ کی امامت کاحال مشہورہے یہاں توصحابی ؓ نے آپ ﷺ کے ساتھ باجماعت نماز پڑھی بھلا پھر کیا وجہ تھی کہ فورًا دہرانے لگے اور اگر بالفرض وہ دہراتے بھی ہوں تو ذہن ہمیشہ اسی طرف جاتا ہے جو معروف اوراقرب ہو پس ادائے سنت جو اقرب تھا اس طرف ذہن اور خیال گیا ہوگانہ کہ تکرارِ فرض کی طرف۔
قضا بعد طلوع الشمس کو امام صاحب ؒ ضروری نہیں کہتے کیونکہ وہ مطلق نفل رہ جاتی ہے البتہ یہ انکی حجت ہے کہ