کہ فاتحہ ایسی چیز ہے اللہ تعالیٰ قسمت الصلوٰۃ بینی وبین عبدی نصفین فاذا قال الحمد للّہ قلت ھذا لی ولعبدی ماسأل الخفرماتا ہے تو فاتحہ ہرگز قابل ترک نہیں اور طرح بھی نہ سہی تو سہوًاضرور پڑھے لیکن ظاہر یہی مراد معلوم ہوتا ہے کہ خیال الفاظ وحروف مراد ہے ورنہ کسی طرح جواب وسوال درست نہ ہوگا۔ اور دیکھئے جوراوی حدیث نے خلافِ حدیث فتویٰ دیا ہے اس سے ترمذی ؒ استدلال کر رہے ہیں اور ولوغ کلب میں بھی یہی ابوہریرہ ؓ اور انکی روایت اور انہیں کا فتویٰ تھا۔ وہاں فتوے پر عمل نہ کیا بلکہ عذ کررہے ہیں کہ ممکن ہے کہ راوی کو حدیث حاضر نہ رہی ہو البتہ حنفیہ کا یہ کلّیہ ہے کہ راوی حدیث کے فتوے اور عمل کا لحاظ کرتے ہیں اور لوگ بھی اسی قاعدے سے فائدہ اٹھاتے ہیں لیکن ہرجگہ نہیں مانتے جہاں موقع ہو امان لیا ورنہ عذر کردیا۔
جو وجوہ مذکور ہوئیں یہ کافی ہیں اور امام کو زائدجواب کی ضرورت نہیںعلاوہ ازیں نسخ کا بھی بہت سے علماء نے دعویٰ کیا ہے کہ ابتداء میں جائز تھا پھر منع فرمایا گیا۔ اور تحقیقی بات یہ ہے کہ امام صاحب ؒ نے تمام روایات کو ملا کر دیکھا کہ شارع کامنشاء کیا ہے مجموعہ روایات سے انکے فہم میں یہ بات آگئی کہ خلف الامام پڑھنے کو شارع کسی طرح بھی پسند نہیں فرماتے نہ سراً نہ جہراً دو حدیثیں شوافع کے موافق مدعا تھیں ان سے بھی امام ؒ ہی کی تائید ہوتی ہے رہیں اور روایات اُن سے صراحۃً کوئی امر ثابت نہیں ہوتا۔ امام صاحب ؒ کی غائر نظر دور پہنچی کہ اس میں کسی قسم کا تغیر ہوتا آرہا ہے اور پھر یہ بھی سمجھے کہ اس میں وسعت سے تنگی کی طرف کو میل ہے پس وہ سب روایات کا ماحصل سمجھ گئے اور کسی قسم کا تعارض نہ رہا۔ پہلے وہ وسعت تھی کہ مقتدی ہو یا امام جہریہ ہو یا سریہ۔ فاتحہ ہو یا سورۃ ۔ سب میں جائزکا حکم تھا پھر ایک زمانہ میں فاتحہ کے سوا سب ناجائز ہوگئے۔ اور پھر کچھ عرصہ کے بعد جہریہ میں سے فاتحہ بھی منسوخ کردی گئی بس امام تو اپنی وسعت نظر سے سمجھ گئے کہ جب جہریہ سے گئی تو سریّہ سے بھی اُڑگئی کیونکہ اسمیں موجود ہے وہی اس میں بھی ہے۔ اور پھر یہ ہے کہ امام صاحب ؒ چونکہ امام ومقتدی کی نماز کو اپنے اصل قاعدہ کے موافق متحد کہتے ہیں تو باوجود یکہلاصلوٰۃ لمن لم یقرء نفی وجود پر حمل کیا جائے پھر بھی کوئی خرابی لازم نہیں آتی کیونکہ بہت سے بہت یہ ہوگا کہ جس صلوٰۃ میں فاتحہ نہ ہو ادانہیں ہوتی لیکن مقتدی کی نماز کو یہ نہیں کہتے کہ وہ خالی ازفاتحہ ہے کیونکہ امام نے پڑھ لیا تو بوجہ وحدۃصلٰوۃ امام وماموم مقتدی کی نمازبھی مع الفاتحہ ہوئی باقی رہا اتحاد اسکو امام صاحب ؒ نے اشاراتِ نصوص سے سمجھا۔ دیکھئے سُترہ امام کو قوم کے لئے بھی کافی کہتے ہیں اوراسکو شوافع بھی مانتے ہیں، اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ نماز واقع میں ایک ہے گو متصف دو ہیں امام متصف بالذات اور مقتدی بالتبع اور بالواسطہ یہی وجہ ہے کہ سب سے افضل کو امام بنانا مناسب ہے جیسے اسکی نماز ایسی ہی سب کی نماز الامام ضامن بھی اسی کی طرف مشیر ہے۔