ثابت ہوگی نہ کہ وجوب والزم۔ حدیث مالی انازع سے ظاہر ہے کہ جس نے خلف الامام پڑھا ہوگا اس نے بالجہر پڑھا ہوگا، نہ بالسر۔ پس جب آپ ﷺ نے ممانعت فرمائی تو فہیم تو وہاں سے فورًاآنحضرت ﷺ کے مطلب ومراد سمجھکر قرأت سے باز آئے اور بعض لوگ صرف جہریہ میں باز آئے لیکن امام صاحب ؒ نے یہیں سے دریافت فرمایا کہ جیسی ممانعت جہری میں ہے وہی سریہ میں ہے کیونکہ منازعت بالقرآن دونوں جگہ برابر ہے سریہ و جہریہ کا فرق نہیں۔
ترمذی ؒ نے اس حدیث کو مخالف شوافع دیکھ کر کہا ہے کہ اس حدیث سے امام شافعی ؒ پر کچھ اعتراض نہیں کیونکہ ابو ہریرہؓ راوی حدیث خود خداجٌ کی حدیث کو روایت فرمارہے ہیں اور انہوں نے جب اپنے شاگرد کو حدیث سُنائی تو اس نے وراء الامام کا عذر پیش کیا جس پر حضرت ابو ہریرۃ ؓ نے اقراء بھافی نفسک فرمایا۔ پس بموجوب قول ابو ہریرۃ ؓ حدیث خلف الامام سراً پڑھنا جائز ہے لیکن انصاف سے ددیکھئے تو کسی طرح اس تقریر سے دفعیہ اعتراض نہیں ہوسکتا۔ اوّل تو خداجٌ کی حدیث سے صاف امام ؒ ہی کا مذہب ثابت ہے کہ نمازناقص رہتی ہے۔ نفی صلوٰۃ کہیں سے نہیں نکلتی اور خیر اسکے علاوہ اور دیکھئے کہ حضرت ابوہریرۃ ؓ کے شاگرد کے سوال اور انکے جواب میں مطابقت نہیں ہوسکتی کیونکہ اسکو شبہ یہ ہوا کہ خلاف الامام کس طرح پڑھوں وہاں تو منازعت بالامام لازم آئیگی گو میں سراً ہی پڑھوں۔ پھر اسکا جواب یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ ہاں سراً پڑھ لیا کرو۔ پس حق یہ ہے کہ ابوہریرہؓ کے فرمانے کا یہ مطلب ہے کہ اپنے نفس میں خیال و تصحیح الفاظ کرلیاکرو۔ نہ کہ تلفظ باللسان۔ اور اسکو حنفیہ بھی منع نہیں کرتے چنانچہ فی نفسک سے صاف یہی مطلب ٹپکتا ہے۔ دیکھئے اسی حدیثِ گذشتہ میں آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ انی اقول پس کیا یہاں قول کے حقیقی معنیٰ مراد ہوسکتے ہیںہرگز نہیں حالانکہ یہاں فی نفسی بھی نہیں فرمایا۔ صائم کے لئے حدیث میں آتا ہے کہ اگر اس سے کوئی جھگڑا کرے تو فلیقل انی صائم اس کے ایک معنی نووی یہ بھی لکھتے ہیں کہ دل میں خیال کرلے کہ میں صائم ہوں اور یہ معنیٰ صرف اس وجہ سے لئے گئے ہیںتاکہ قول کے حقیقی معنیٰ لینے میں اظہار صوم اور شبہہ ریا نہ ہوجائے حالانکہ اظہار صوم کچھ منع نہیں پس اس محل خلاف اور ما نحن فیہ میں کیا قول سے خیال فی النفس مراد لینا کچھ بعید ہوگا نسائی میں ہے کہ ان اللّٰہ تجاوز عن امتی ماتحدثت بہ انفسہا مالم یتکلم (او کما قال) اور نسائی ؒ اسکو عدم وقوع طلاق بحدیث النفس میں لائے ہیں ظاہر ہے کہ مراد یہاں عدم تصحیح حروف باللسان ہے ورنہ تصحیح الفاظ سے تو طلاق واقع ہوجاویگی۔ پس اقرأ بہا فی نفسک سے بھی تصحیح الفاظ باللسان مراد نہیں۔ (راقم نیاز مند)
پس ضرور ہے کہ وہاںاقرأ فی نفسک سے صرف تخیل کلمات وآیات مراد ہو پس اب شوافع کو صاف مضر ہوگی اور امام ترمذی ؒ کی تقریر سے فائدہ نہیں ہوتا۔ اور بالفرض اگر اقرأ فی نفسک سے قرأۃ سری مراد ہو بھی تو فرمائیے کہ یہ فتویٰ حضرت ابوہریرہ ؓ نے کسی حدیث کے اشارہ سے دیا ہے یا صرف قیاس سے ۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ قیاس ہی سے فرمایا ہے