بصنعہٖ ہو یا نہ ہو( چنانچہ مسائل اثنا عشر جو فقہ میں مذکور ہوتے ہیں اسی خلاف پر مبنی ہیں) حدیث کا جواب امام صاحب ؒ حضرت ابن مسعود ؓ کے تشہد کو کہتے ہیں جس میں آپ نے اذا قلت ھذا او فعلت ھذا فقد تمّت صلوٰتک فرمایا ہے باقی اس حدیث پر عمل بھی ہوگیا کہ خروج بالسلام کو واجب وضروری کہا گیا گو فرض نہیںمانا۔ قراء ۃ فاتحہ کی بحث تو باب قرأت میں آوے گی ۔ لیکن یہاں سے یہ بات سمجھنی چاہیے کہ خلاف اس بار ہ میں دو ہیں۔ ایک تو یہ قرأت فاتحہ فرض ہے۔ یانہیں دوسرے یہ کہ فرض سب کے لئے یا امام ومنفرد کے لئے۔ امام شافعی صاحب ؒ نے قراء ۃ فاتحہ کو فرض اور سب کے لئے فرض فرماتے ہیں ۔ انکا سب سے بہتر استدلال یہی ہے اور حدیث قوی ہے وہ ہر دو مسئلوں کو اسی سے ثابت فرماتے ہیں۔اوّل فرضیت قراء ۃ فاتحہ وہ تو لا صلوٰۃ الخ سے نکلی کہ بدون اسکے نماز جائز ہی نہیں ہوتی۔ اور دوسرے یہ کہ فرضیت بھی عام ہے وہ فرماتے ہیں کہ لفط من مصلی کی ہر سہ اقسام (یعنی منفرد۔ ومقتدی و امام کو شامل ہے۔ پس لمن لم یقرء سے معلوم ہوا کہ بلا فاتحہ ان ہر سہ اقسام کی نماز نہ ہوگی۔ لیکن امام صاحب ؒ بھی اسی حدیث سے پورا جواب دے سکتے ہیں گو دوسری وجہ سے بھی متعدد جواب دیئے گئے ہیں۔ پس بہ نظر انصاف دیکھنا چاہیے کہ آپ ﷺ صلوٰۃ کی نفی فرمارہے ہیں بر تقدیر نہ پڑھنے فاتحہ کے اور کسی اور سورۃ کے بعض روایات میں فصاعدًا ہے اور بعض میں او مازاد۔سب کا حاصل اسی قد ہے کہ برتقدیر عدم قراء ۃ فاتحہ وسورۃ دیگر نماز نہیں ہوگی۔ امام صاحب ؒ نے اس سے کمال کی نفی سمجھی اور فاتحہ و سورۃ دونوں کو واجب قرار دیا۔ جسکے ترک سے سجدہ سہو لازم آوے اب اسپر شور ہورہا ہے کہ امام نے حدیث کو چھوڑدیا۔ اور یہ کیا وہ کیا حالانکہ امام نے پوری حدیث پر عمل کیا تھا نہ ادھوری پر۔ امام شافعی ؒ صاحب نے کیا کیا کہ فاتحہ پر جم گئے۔ اور ایسے جمے کہ فرض فرمادیا اور ضم سورۃ کو اتنا گھٹایا کہ صرف مسنون فرمادیا۔ یعنی دوبارہ فاتحہ تو حدیث کو نفی وجود و قبول پر حمل کیا اور دربارہ سورۃ نفی سنیت فرمائی۔ اب جائے غور ہے کہ امام نے نفی کمال پر حمل کرلیا تو یہ کیا غضب ہوا وہاں تو نفی کمال اور ترک واجب پر حمل کرنے سے وہ شور اور یہاں ترکِ سنیت پر محمول ہے اور پھر حدیث کو چھوڑنے والے نہیں شمارہوتے۔ امام نے تمام حدیث کے دونوں الفاظ میں وہی ایک معنیٰ لئے حضرت امام شافعی ؒنے آدھا تیتر آدھا بٹیر کردیا۔ بنظر انصاف امام کا جواب یہیں سے پورا ہوگیا اور دوسرے جوابات کی ضرورت نہ رہی۔ واجب کی اگر یہی تعریف ہے جو ہمارے اصولی لکھ رہے ہیں تو ہرگز سمجھ میں نہیں آتی اور معلوم ہوتا ہے کہ امام صاحب ؒنے بھی واجب کے یہ معنیٰ نہ لئے ہونگے کہ واجب وہ ہے کہ دلیل مشتبہ سے ثابت ہو دلیل قطعی اس کے لئے نہ ہو اور فرض وہ کہ جو دلیل قطعی سے ثابت ہو یا یہ کہ فرض وہ جسکا منکر کافر ہو اور واجب وہ کہ اسکا منکر کافر نہ ہو۔پس معلوم نہیں کہ واجب کوئی ایسی ہی بین بین شے ہے جیسے سور حمار وغیرہ۔ مشکوک کہ دلیل کے قطعی نہ ہونے سے ایک درمیانی قسم نکل آئی ورنہ پانی فی نفسہٖ یا طاہر تھا یا