نہیں۔ اصل یہ ہے کہ بعض ایام میں صبح کی اذان عبداللہ ابن اُمِّ مکتوم ؓ کہتے تھے اور اذان باللیل حضرت بلال ؓ کہتے تھے اور کبھی اذان فجر حضرت بلال ؓ کہتے تھے ۔ اور عبداللہ ؓ اذان باللیل کہتے تھے چنانچہ ایک انصاریہ کی روایت سے ثابت ہے کہ فرماتی ہیں کہ حضرت بلال ؓ صبح کو آکر میرے مکان کے اُوپر بیٹھتے تھے اُفق کی جانب دیکھتے تھے جب طلوع فجر ہوتا اذان کہتے پس ان العبد قد نام کی حدیث ایسے ہی زمانہ کا واقعہ ہے کہ حضرت بلال ؓ صبح کی اذان کہتے ہوں ورنہ غلطی اور تدارک کی کیا صورت اور ضرورت ہوتی صراحۃً معلوم ہوتا ہے کہ اذان فجر میں غلطی ہوئی تھی نہ کہ اذان لیل میں اب یہ روایت قوی ہو یا ضعیف لیکن پہلی حدیث کو اس سے تعلق ہی نہیں تعارض کس طرح ہوجائے۔ کیونکہ وہ آپ کا فرمانا بجائے خود ہے کہ بلال ؓ رات سے اذان کہتے ہیں۔ اس سے استقبال ہی مراد لیجئے پھر بھی تعارض نہیں کیونکہ یؤذن بلیل اذان لیلکے لئے ہے نہ کہ اذان فجر کے لئے ورنہ پھر ابن امِ مکتوم ؓ کو بوقت فجر اذان کی کیا ضرورت ہوتی جبکہ پہلی اذان جس کی نسبت کلوا وشربواکا ارشاد ہے صبح کے لئے سمجھی جاتی اسکی شہادت کلوا وشربوااذان لیل کی نسبت ہے نہ کہ اذان فجر کی۔ اس روایت کو سمجھئے کہ آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ انہ یوذن لِیُنَبّہ نائمکم و یرجع قائمکم یعنی بلال ؓ اسوقت رات کو اس لئے اذان کہتے ہیں کہ جو لوگ تمام رات سوتے رہے ہیں وہ اس وقت کچھ پڑھ لیں اور جنہوں نے تمام رات عبادت میں گذار ی ہے وہ ذرا آرام کریںنماز صبح کے لئے تازہ دم اور ہلکے ہوجائیں اس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ اذان لیل تھی نہ کہ اذان فجر۔ پس ان میں اس قدر تعارض سمجھنا کہ ایک حدیث کے صحیح ہونے کی تقدیر پر دوسرے کو لا معنے لہ‘ کہیں درست نہیں بلکہ یہ غلطی ہوئی کہ بلال ؓ کو ہمیشہ ایک اذان کے لئے معین سمجھا گیا جو درحقیقت کبھی صبح کی اذان کہتے تھے اور کبھی رات ۔ کلوا وشربواکی حدیث اس زمانہ کی ہے جبکہ وہ رات کو اذان دیتے تھے اور غلطی اور تدارک کی روایت اس وقت کی ہے کہ وہ صبح کے لئے معین تھے ورنہ تدارک کی صورت نہیں بنتی کیونکہ اگر اذان لیل قبل الفجر ہوئی تو غلطی اور غفلت کیا ہوئی اور اطلاع غلطی کی کیجائے۔ روایات سے یہ تغیر وقت بلال وابن مکتوم رضی اللہ عنہما صاف ظاہر ہے لیرجع قائمکم سے بلال ؓ کا اذان لیل کے لئے ہونا اور انصاریہ کی روایت سے صبح کے لئے ہونا ثابت ہوگیا تو ابن مکتوم ؓ کا تغیر خود معلوم ہوگیا پس حدیث کلوا وشربواسے جو از اذان فجر من اللیل ہرگز نہیں نکلتا کیونکہ وہ اذان صبح تھی ہی نہیں اوّل تو بوجہ روایت لیرجع قائمکم اور دوسرے اس وجہ سے کہ اگر اسکو اذان صبح پر محمول کریں تو اذان ابنِ مکتوم ؓ پھر کس لئے تھی البتہ روایت کلوا وشربواسے کچھ تقویت اگر ہوتی ہے تو حنفیہ کو ہوتی ہے کہ دوسری روایات سے معلوم ہوگیا کہ وہ اذان لیل تھی اب نہ ان عبد قد نامکی حدیث میں اور ابن عمر ؓ کی پہلی روایت میں اور نہ مؤذن عمر ؓ کی روایت میں کچھ تعارض و خدشہ رہے گا۔ (امام بخاری نے اپنے کمال فہم سے اس حدیث کو اذان بعد طلوع فجر کا ستدلال بنا ہے بخلاف ترمذی کے) البتہ اذان لیل جو حنفیہ