لے کیونکہ اوّل تو وہ حسبِ اشاراتِ حدیث ادا ہوگی ورنہ کم ازکم قضا تو ضرور ہی ہوجائیگی البتہ عصر اس میں نہ پڑھے تاکہ خلاف احتیاط نہ ہو کیونکہ اگر وہ ایک روایت کے موافق ادا ہوگی تو اشارات کے بموجب تو بالکل ضائع ہوگی نہ ادا نہ قضاء۔ پس بہتر ہے کہ ایک مثل کے بعد ظہر تو پڑھے لیکن عصر نہ پڑھے تاوقتیکہ دو مثل نہ ہوجائے یہاں تک خلاف بین الائمہ والامام سے ثمرہ صرف یہ ہوگا کہ اگر کوئی شخص ایک مثل سایہ تک ظہر نہ پڑھے اور اما م سے فتوی لے تو فرمائیں گے کہ اسی وقت پڑھو کیونکہ اگر بموجب ایک روایت کے قضا ہے تو کسی روایت اور اشارہ کے مطابق ادا بھی تو ہے بہتر ہے کہ ابھی ادا کرلے ورنہ بعد المثلین تو کسی طرح احتمال ادا باقی ہی نہیں رہے گا اور اگر دیگر ائمہ سے استفسار کیا جائے وہ اس وقت کو اور دوسرے اوقات کو قضا ہونے میں برابر فرمائیں گے نہ اس میں ادا نہ اس میں قضا لیکن حق یہ ہے کہ امام صاحب ؒ نے یہاں کسی حدیث کو نہیں چھوڑا سب پر عمل کیا اور نہات عمدہ طرح سے کیونکہ وہ حدیث پیش نظر تھی جس میں آپ نے یہودونصاریٰ کو اجیر من الظہر الی العصر اور اپنی امت کو اجیر من الظہر الی المغرب سے تشبیہ دی ہے جس سے اشارۃً ظاہر ہوتا ہے کہ وقت عصر بہ نسبت ظہر کے قلیل ہے اور قلیل ہونیکی یہی صورت ہے کہ دو مثل سے غروب تک وقتِ عصیر ہو ورنہ ایک مثل سے مغرب تک وقت عصر ہونے میں وقت ظہر کم رہ جائے گا اور مثال فرمودہ آنحضرت ﷺ درست نہ ہوگی۔ نیز وہ حدیث بھی یاد تھی جسکو ترمذی نے امام شافعی ؒ کے مقابلہ میں پیش کیا تھا جس میں رأینا فَیٔ التلول منقول ہے۔ اس سے بھی بقائے ظہر الیٰ ما بعد المثل ظاہر ہوتا ہے کیونکہ تلول کا سایہ زوال کے وقت سے نہایت دیر بعد میں یعنی تقریبًا ایک مثل کے قریب ظاہر ہوتا ہے اور زمین پر آتا ہے اس لئے کہ ابتدائے سایہ خود اسی پر پھیلتا رہتا ہے۔ بہت عرصہ کے بعد اور تمام مسافت تلول کو طے کرنے کے بعد زمین پر سایہ پڑتا ہے۔ پس جب ایسے وقت اذان ہوئی تو تلاش آب اور قضاء حاجت وغیرہ میں بھی کچھ وقت صرف ہوا ہوگا ۔ کیونکہ آپ نے فرمایا ہے کہ اذان و اقامت میں اتنا فصل ہو کہ معتصر اپنی حاجت سے اور آکل اکل سے فراغت پالے۔ اب بہ نظر انصاف معلوم ہوتا ہے کہ اتنے عرصہ میں سایہ ایک مثل سے تجاوز کرگیا ہوگا۔ پس آپ ﷺ کا نماز اس وقت ادا کرنا بقاء ظہر الی المثلین کی دلیل ہے اور حدیث بھی یہ صحیح ہے بخاری نے بھی دس جگہ سے زیادہ نقل کیا ہوگا۔ امامۃ جبرئیل کی حدیث سے اقوی ہے کیونکہ وہ صرف حسن ہے اور بخاری نے اسکو ترجیح نہیں دی۔اور اس سے مؤخر بھی ہے البتہ تصریح کی کمی ہے۔ پس انہیں اشاراتِ ظاہر کی وجہ سے امام ؒ نے اپنی احتیاط کے موافق ادائے عصر کو قبل المثلین منع فرمایا کیونکہ وہ ایک روایت کی رو سے لغو ہوجاتی ہے گو ایک روایت کے موافق صحیح بھی ہوتی ہے البتہ ادائے ظہر کو جائز فرمایا تاکہ اگر بموجب حدیث ادا نہ ہوئی تو قضا تو ہو ہی جائے گی اور بموجب روایات اشارات تو ادا ہی ہوجائے گی۔ یہ ایسا ہی قصّہ ہے کہ امام صاحب ؒ و ابو یوسف ؒ کو