واقعات صدیق |
اقعات ِ |
|
اورمغرب کی نماز ادافرمائی اورسخت غم و کرب کے عالم میں فرمایا نماز جنازہ اداکی جائے، حضرت مدرسہ کے وسیع میدان میں تشریف لائے ، مجمع بہت زائد تھا لوگوں کا ہجوم تھا، حفاظ و قراء و علماء سب ہی اس میں تھے، حضرت والا نے نماز جنازہ پڑھائی، اس وقت آپ پر رنج و غم کا اتنا اثر تھا کہ نما ز جنازہ پڑھانے کے لئے جب آپ نے تکبیر کہی تو اللہ اکبر بھی بآواز بلند پورے طور سے نہ کہہ سکے، بہر حال بھراتی ہوئی آواز سے نماز پڑھائی، نماز کے بعد جنازہ قبرستان لے جایاگیا، حضرت بھی جنازہ کے ساتھ تشریف لے گئے، ایک تو مسلسل سفر کی تھکاوٹ دوسرے بیماری اورضعف اس قدر غالب تھا کہ چلنا بھی مشکل تھا لیکن کسی طریقہ سے بمشقت قبرستان تشریف لے گئے اورجنازہ قبر میں رکھ دینے کے بعد نیچے زمین پر ایک جانب آپ بیٹھ گئے، سکتہ کا عالم تھا، آنکھوں سے آنسو جاری تھے، اور تھوڑے تھوڑے وقفہ سے ہچکیاں بھی آرہی تھیں ، طلباء بھی رنجیدہ خاموش حضرت کے قریب چاروں طرف کھڑے تھے، ہر شخص بدحواس ، بدحال اورپریشان رنج و غم اورفکر میں ڈوبا ہوا تھا، کچھ دیر کے بعد حضرت والا واپس تشریف لائے اوراپنے حجرہ میں آکرفرمایابہت نیک لڑکا تھا، آج تک کبھی اس کی کوئی شکایت سننے میں نہیں آئی تم لوگوں نے مجھ کو سفر ہی سے کیوں نہ بلالیا، انشاء اللہ تعالی شہادت کا درجہ پائے گا، پھر حضرت والا تنہا کمرہ میں ہوگئے اورعشاء کے وقت نماز کے لئے مسجد تشریف لائے، حضرت کا معمول تھا کہ روزانہ عشا ء کے بعد طلباء کو کوئی دینی اصلاحی کتاب پڑھ کر سناتے تھے، یا زبانی کچھ فرمادیا کرتے تھے، طلباء سب جمع ہوگئے حضرت نے فرمایا جاؤ آج کچھ نہیں کہوں گا؟ لیکن طلباء بیٹھے ہی رہے، کچھ طلباء جانے لگے، فرمایا اچھا بیٹھو، حضرت والا کرسی پر بیٹھے رنج و غم سے آپ کی آنکھیں سرخ تھیں ، تھکاوٹ سے بدن چور چور تھا، شدت غم کی وجہ سے آواز نہ نکلتی تھی، اسی کرب کے عالم میں حمد و صلوۃ کے بعد حضرت نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔