واقعات صدیق |
اقعات ِ |
|
گزررہے تھے حضرت علیہ الرحمہ بھی ہمارے ساتھ تھے گاؤں پہنچنے پر حضرت نے اپنا ایک قصہ بیان فرمایا کہ میں ایک مرتبہ پیدل چل کر جب اس گاؤں پہونچا تو بہت تھک چکا تھا سید ھا مسجد گیا نماز پڑھی اور اعتکاف کرکے ٹھہرگیا۔ جاڑے کی رات تھی اپنی چادر کافی نہ ہوئی مسجد کی جانماز اپنے اوپر لپیٹ کر ایک کنارے لیٹ گیا، میں جاگ ہی رہا تھا کہ ایک بڑے میاں جنکا نام جمن تھا، تہجد پڑھنے آئے مجھے لیٹا دیکھ کر کہا کون لیٹا ہے؟ میں نے کہا صدیق ! تو کہنے لگے کہ اچھا ہتھورا والا حافظ؟ میں نے کہا جی ہاں پھر وہ بیچارے اسی وقت اپنے گھر سے کچھ کھانا لاکر کھلایا میں نے کہا کہ میں لڑکے لینے آیا ہوں تاکہ ان کو پڑھاؤں چنانچہ انہوں نے بھانجے علی حسین اور ان کے ساتھیوں کو پڑھنے کیلئے بھیج دیا یہ تھے حالات حضرت کے کہ بے سرو سامانی کا عالم مگر دل میں ہمت بے پناہ اور جفا کشی بے انتہا۔ اس جدوجہد اورگاؤں گاؤں پھرنے کے سلسلہ میں بعض آدمی ایسا بھی کہتے تھے کہ تم کو بچہ دینے میں ہمارا نقصان ہے بچے کچھ بکریاں چرالیتے ہیں یا مزدوری کرکے کچھ کمالیتے ہیں آپ ان سے فرماتے ارے بھئی ہم تم کووہ پیسے دے دینگے، بہر حال اس طرح دیہاتوں سے کچھ بچے مل جاتے تو ان کو لیکر داخل مدرسہ کرتے (اس وقت مدرسہ کا کوئی نام یا عمارت کچھ نہ تھا) ان بچوں پر رات دن محنت کرتے اور وعدہ کے مطابق ان کے والدین کو وہ رقم پہنچاتے کئی بار میرے ذریعہ سے سات اور گیارہ روپیہ پہونچوایا ہے۔ ناظرہ ختم ہونے کے بعد حافظہ سنتے پھر فارسی و عربی بھی ان کوپڑھاتے جب طلباء کچھ زیادہ ہوئے تو ایک مدرس مولوی عبدالخالق باندوی کو رکھ لیا۔اتباعِ سنت پر زور حضرت کے عزیز وں میں سے ایک صاحب تشریف لائے جو حضرت کی زیر نگرانی تعلیم و تبلیغ کا کام کررہے تھے، حضرت نے کسی کام سے جلدی ان کو بھیجا یہ