واقعات صدیق |
اقعات ِ |
|
ان بیچاروں کی تو بن گئی لیکن میرا کیا ہوگا؟ حضرت باندوی رحمۃ اللہ علیہ کے ہمنام ایک بزرگ تھے قاری صدیق صاحب لکھنوی، حضرتؒ ان کے بڑے احسان مند تھے اور برابر ان کا تذکرہ فرماتے تھے، ایک مرتبہ ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا: ’’قاری صاحب لکھنؤ سے میری دعوت پر تشریف لاتے، اورپورے علاقے کا بیل گاڑی پر سفر فرماتے، ایک ایک ہفتہ کا سفر ہوتا تھا باندہ کے اطراف میں مختلف علاقوں کا سفر ہوتا تھا۔ ایک مرتبہ شدید بخار تھا، اسی حال میں لکھنؤ سے تشریف لائے اورآنے کے بعد فرمایا: ’’میں تو یہ سوچ رہا تھا کہ اس بیچارے (یعنی حضرت علیہ الرحمہ) نے لوگوں سے وعدہ کررکھا ہوگا، اس کا کیا ہوگا‘‘۔ بڑے مخلص تھے انکے میرے اوپر بڑے احسانات ہیں ، ایک مرتبہ برولی تشریف لے گئے تو وہاں اعزاز میں بیسیوں قسم کے کھانے دسترخوان پر آئے، یہ دیکھ کر قاری صاحب آبدیدہ ہوگئے اور فرمایا۔ ’’ان بیچاروں کی تو بن گئی، مجھ کو نیک سمجھ کر کچھ خرچ کرتے ہیں لیکن ہمارا کیا ہوگا۔؟‘‘ حضرت علیہ الرحمہ نے قاری صاحب کی اس بات کو نقل کرنے کے بعد فرمایا : ’’میں بھی اپنے متعلق سوچتا ہوں کہ بلانے والے بیچارے توبہت خرچ کرتے ہیں وہ تو مجھے نیک سمجھتے ہیں ، ان کے ایثار و قربانی اورخلوص میں شبہ نہیں ، لیکن میرا کیا ہوگا‘‘۔(تذکرۃ الصدیق) ٭٭٭