واقعات صدیق |
اقعات ِ |
|
خدا کی مدد۔ دیوان گنج کا واقعہ حضرت مولانا مفتی شبیر احمد صاحب بیان فرماتے ہیں کہ ایک دن حضرت والا کے ساتھ رفیق سفر کی حیثیت سے خاکسار بھی تھا، علی الصباح ہتھورا سے روانہ ہوئے، رائے بریلی ، پرتاپ گڑھ، و سلطانپور اور الہ آباد کے مختلف مقامات میں جانا تھا، حضرت مولانا مفتی جلال الدین صاحب دیوان گنج پرتاپ گڑھ سے جیپ لیکر آئے ہوئے تھے ان کی گاڑی سے تقریبا سات بجے رائے بریلی پہونچ گئے، وہاں حضرت والا کی بڑی صاحبزادی رہتی ہیں ، ان کے یہاں رفقاء سفر کیلئے ناشتہ کرنے کو کہلوادیا اورفرمایا کہ ناشتہ تیار ہوتے ہوتے حضرت اقدس مولانا سید ابوالحسن علی میاں ندوی ؒ سے ملاقات کرکے آتے ہیں ، وہاں سے جب واپس ہوئے تو دیکھا کہ شہر میں ایک ہنگامہ ہوگیا ایک مسجد میں بم پھٹنے کی وجہ سے کئی جانیں ہلاک ہوگئیں تو شہر کے باہر باہر نکل کر پرتاپ گڑھ کے لئے روانہ ہوگئے وہاں شہر سے کچھ فاصلہ پر دیوان گنج کے نام سے ایک آبادی ہے۔ مئی جون کا مہینہ تھا سخت ترین گرمی تھی، پنڈال کے اندر جتنے افراد تھے اسکے دوگنے سے زیادہ پنڈال کے باہر لوگ تھے، گرمی کی تپش کی وجہ سے نہایت براحال تھا ایک بجے کڑاکے کی دھوپ میں حضرت والاؒ کا بیان شروع ہوا خطبہ شروع کرنے سے قبل کرسی پر بیٹھتے ہی فرمایا کہ بھائی آپ لوگ دھوپ میں ہیں ، ہم سایہ میں اللہ تعالی سے دعاء فرمائیں کہ کوئی شکل پیدا ہوجائے، یہ جملہ زبان سے نکلاہی تھا کہ فوراً گاڑھا بادل آگیا، ٹھنڈی ہوائیں چلنی شروع ہوگئیں اس وقت حاضر ین میں دارالعلوم دیوبند ، مظاہر علوم سہارنپور کے بہت سے علماء فضلاء موجود تھے۔ یہ منظر دیکھ کر کسی کے آنکھوں سے آنسو جاری تھے اورکوئی فرط مسرت سے مسکرارہے تھے اسی حالت میں تقریبا ڈیڑھ گھنٹہ پروگرام چلا پروگرام کے بعد دھوپ پوری طرح اپنی جگہ لوٹ آئی۔ سچ ہے من کانﷲ کان اللہ لہ۔