واقعات صدیق |
اقعات ِ |
|
نے علاقہ کی قدیم تاریخ کا بھی تذکرہ فرمایا اورنواب صاحب و نیز ہتورا سے ربط کا، اور یہ بھی فرمایا: ’’ہم اسی ملک کے ہیں ، یہاں کے نمک خوار ہیں اور خیر خواہ ہیں یہاں کے نفع و نقصان کا احساس رکھتے ہیں اور ایسے لوگوں کے لئے ہمارے دل متاثر ہوتے ہیں اور ہم ان کے لئے دل سے دعاء کرتے ہیں ۔‘‘ جیسے کہ ان کی آمد سے پہلے حضرت نے انتظامیہ کے لوگوں سے فرمایا تھا کہ ہم ان کے لئے ا ہتمام کررہے ہیں حالانکہ اب عہدہ نہیں رہ گیا، تو آدمی کی بھی تو بات ہوتی ہے، یہ کیا کہ بس عہدہ کی وجہ سے اکرام ہو۔ ارجن سنگھ نے بھی جوابی تقریر میں اپنی مسرت و شکریہ کے اظہار کے ساتھ کہا کہ واقعی اصل بات تو کام کرنا ہے اور اصل کام انسان بنانا ہے۔ (تذکرۃ الصدیق ، ص:۳۸۵)بابری مسجد کے انہدام پر حضرت کا حکیمانہ خطاب تاریخ ہند کا ایک اہم موقع دسمبر ۱۹۹۲ء کا ہے جب بابری مسجد کا سانحہ پیش آیا۔ ظاہر ہے کہ ملک کے چپہ چپہ کا مسلمان عام ہو یا خاص۔ کچھ عجیب تاثر اور رنج و غم کے ساتھ ، جوش میں تھا ، بالخصوص عوام و جوان، اس کی وجہ سے پورے ملک میں نہ جانے کیا کیا ہوا۔ باندہ میں بھی فضا گرم تھی، مسلم جوانوں اورعوام میں بڑا اشتعال تھا، قوی اندیشہ تھا کہ کیا کر بیٹھیں یا کیا ہوجائے، تو حکام نے حضرت سے گذارش ہی نہیں التجا کی۔ کہ شہر تشریف لائیں اور ہم شہر کے مسلمانوں کو جامع مسجد میں جمع کرتے ہیں آپ ان کوسمجھاکر قابو کریں ۔ بہر حال حضرت نے حالات اور اپنے مزاج کے تحت منظور فرمایا۔ اورخطاب فرمایا۔ حق تعالی نے بڑی اچھی باتیں کہلائیں ۔ یہ خطاب حضرت کا فوری طورپرایک پمفلٹ کی شکل میں شائع کیا گیا۔ پہلی اشاعت تو ہتورا سے ہوئی، اس کے بعد دیوبند