واقعات صدیق |
اقعات ِ |
|
سے سرفراز فرمایا۔حضرت مولانا شاہ وصی اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے بھی آپ کو خلافت حاصل تھی، اور حضرت والا بڑے ہوکر بھی بہت سے دیگر بزرگوں سے اصلاحی تعلق رکھتے تھے۔تدریسی خدمات: فراغت کے بعد ۱۳۶۷ھ میں مدرسہ فرقانیہ گونڈہ میں پڑھانا شروع کیا تھا کہ آپ کے والدہ کے فرمان پرماں کی خدمت وراحت کی بنا پر وہاں سے چھوڑ کر قریب کے مدرسہ اسلامیہ فتحپور میں تدریس پر لگ گئے، درس نظامیہ کی تعلیم وتدریس کے دوتین سال گزرے تھے کہ باندہ کے مختلف علاقوں سے ارتداد کی خبریں تیز ہوگئیں اور مسلمانوں کے شدھی ہونے کی وباپھوٹ پڑی، علاقہ کی صورتحال دیکھ کر آپ فتح پور سے تدریسی خدمات چھوڑ کر اپنے وطن ہتورا ضلع باندہ آکر مقیم ہوگئے ،فتنہ ارتداد کا کامیاب مقابلہ کیا جس سے لوگوں کا اسلام محفوظ رہا اورسب کچھ قربان کرکے برابر تبلیغی اسفار میں منہمک رہے۔جامعہ کا قیام: اپنے علاقہ سے جہالت کے خاتمہ کیلئے سب کچھ قربان کرکے بالآخر ۱۳۷۱ھ میں گھر سے قریب ایک وسیع و عریض زمین کے ایک کنارے میں ایک معمولی سا چھپر ڈال کر پڑھانا شروع کیا اور انتہائی تنگی اور بدحالی میں تعلیم دین کو جاری فرمایا جو آج بڑے قلعہ کی شکل میں دعوت نظارہ دے رہا ہے جہاں سے ہزاروں افراد آج بھی فیض پارہے ہیں ۔علمی وعملی کمالات: عارف باللہ حضرت مولانا قاری سید صدیق احمد صاحب نور اللہ مرقدہ اس صدی کے کامل ترین عالم ربانی اور بے مثال رہبر و رہنما تھے اورمسلم و غیر مسلم اورہر مکتب فکر کے لوگ آپ کو خدا کا محبوب ترین ولی سمجھتے تھے حضرت والا کی زندگی درس و تدریس عبادت و ریاضت قرآن سے شغف، مہمان نوازی، تواضع وانکساری، اور دنیاسے بے رغبتی و استغناء طلباء و علماء واولاد اور ہر طبقہ کی اصلاح و