واقعات صدیق |
اقعات ِ |
متعدد رفقاء کے ساتھ استقبال کیلئے باندہ کے پلیٹ فارم پر موجود ہیں ۔ ہم لوگوں کے ٹرین سے اترتے ہی سب سے پہلے قاری صاحب نے آگے بڑھ کر اپنے مخصوص انداز میں والد مرحوم سے زحمت سفر اٹھانے پر معذرت کی اور اسکے بعد اپنے کاندھے سے رومال اتار کر یہ کہتے ہوئے والد صاحب کی طرف بڑھایا کہ حضرت اسے کانوں میں لپیٹ لیجئے ہوا بہت گرم ہے، والد مرحوم نے اس طرح وہ رومال لپیٹنے میں تامل کیا کہ خودحضرت قاری صاحب کے کان کھلے رہیں ، اس پر ساتھیوں میں سے ایک صاحب نے دوسرا رومال بڑھایا جسے حضرت قار ی صاحب نے لے لیا اور حضر ت والا کا رومال والد مرحوم نے کانوں پر لپیٹ لیا۔ اسٹیشن سے باہر نکل کر حضرت قاری صاحب نے بتایا کہ موسم کی شدت کے پیش نظر نظام یہ رکھا ہے کہ نماز عصر تک یہیں جامع مسجد میں قیام رہے گا پھر عصر کے بعد مقام جلسہ کے لئے روانگی ہوگی۔ چنانچہ اسی نظام کے مطابق ہم لوگ جامع مسجد آگئے جامع مسجد کے ایک ٹھنڈے اور آرام دہ کمرہ میں دو چار پائیاں مع بستر موجود تھیں جہاں دوپہر کے کھانے کے بعد قیلولہ کے لئے ہم دونوں پہنچا دیئے گئے ابھی میری آنکھ لگی ہی تھی کہ والد مرحوم کی ارے ارے یہ آپ کیا کررہے ہیں کی آواز پر آنکھ کھل گئی اور پھر جوکچھ میری آنکھوں نے دیکھا اسے حضرت قاری صاحب مرحوم کی خود فراموشی اور فنائیت کے سواکیا تعبیر دوں ؟ دیکھا کہ قاری صاحب والد ماجد کے پیر دبانا چاہتے ہیں اور والد ماجد اس پر کسی طرح راضی نہیں ہیں پھر جب یوں بات نہ بنی تو قاری صاحب تیل کی شیشی لیکر آگے بڑھے اور فرمایا اچھا حضرت کم سے کم سر پر تیل لگانے کی اجازت تو دیدیجئے اسکے جواب میں والد ماجد نے فرمایاکہ مجھے کیوں شرمندہ کررہے ہیں آپ جائیے تاکہ میں کچھ دیر آرام کرسکوں تب قاری صاحب نے فرمایا حضرت اس میں کیا حرج ہے میں گونڈہ والا صدیق احمد ہی تو ہوں ، مگر والد ماجد کے شدت کیساتھ انکار کی وجہ سے بالآخر قاری صاحب واپس چلے گئے۔ اسکے بعد میں لیٹا لیکن پھر نیند نہ آسکی میں