واقعات صدیق |
اقعات ِ |
|
مطابق جامع مسجد باندہ میں قرآن مجید سنارہے تھے اور معتکف تھے۔ حضرت سے گفتگو کا سلسلہ شروع ہوا، اور ایک سے زائد ملاقاتیں ان لوگوں نے کیں ، اتفاق سے باندہ کے دوسرے طبقہ کے علماء سے انہوں نے کچھ تائیدی بیان حاصل کرلیا تھا۔ حضرت سے گفتگو کی نوبت آئی تو حضرت نے نرمی سے بات کی اور ٹالنا چاہا اور فرمایا: کہ ہم تو اپنے بڑوں کے پابند ہیں ، انہیں کے کہنے پر چلتے ہیں ، ہمارے بڑے دیوبند و سہارنپور اور لکھنؤ میں موجود ہیں ، آپ حضرات ان سے رابطہ کریں ۔ لیکن ان کا مقصد کچھ اور تھا، وہ مصر رہے جس کے نتیجے میں سخت گفتگو کی نوبت بھی آئی اور صورتحال خراب ہوگئی کلکٹر صاحب نے کہیں یہ کہہ دیا کہ بہت سے لوگ جائز کہہ رہے ہیں تو حضرت نے کلکٹر سے فرمایا: بہت سے لوگ تو متعہ کو بھی جائزکہتے ہیں تو اس کو کیا کیا جائے، کلکٹر صاحب نے یہ بھی کہہ دیا آپ اس کی فکر نہ فرمائیں کہ آپ کے خلاف کوئی کچھ کہے گا، کوئی شخص آپ کے خلاف ایک لفظ زبان سے نہیں نکال سکتا، حضرت کو اس پر بہت غصہ آیا اور سخت لہجہ میں فرمایاِ: ’’کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ میں جائز اور ناجائز کا فتوی لوگوں کی ناراضی اور رضامندی کو سوچ کر ، ان کے خوف اوربے خوفی کی بنیاد پر دوں گا؟ اس پر کلکٹر کے رفقاء میں کسی نے کہا: مولانا آپ کو معلوم ہے کہ آپ کس سے بات کررہے ہیں ؟ حضرت نے اسی لہجہ میں فرمایاجی ہاں میں جانتاہوں یہ کلکٹر صاحب ہیں اوریہ وزیر ،اورفرمایا: آپ حضرات جو کرسکتے ہوں کرلیں ، میں نسبندی کے جواز کا فتویٰ نہیں دوں گا۔ ظاہر ہے کہ اس وقت ملک میں اور بالخصوص اس مسئلہ میں مطلق العنانی اوربدعنوانی کا دور تھا، اس سخت گفتگو کے بعد صورتحال تشویشناک ہوگئی تھی اور یہ سمجھ لیاگیا تھا کہ حضرت کی گرفتاری یقینی ہے، چنانچہ اس خیال کے تحت حضرت نے بھی خود کو سنت یوسفی کی ادائیگی کے لئے آمادہ کرلیا تھا اور بڑے حوصلے کے ساتھ اپنے بعض