احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
شخص سچ پر ہے اور سچے خدا کو مانتا ہے۔‘‘ اس سے صاف ظاہر ہے کہ جو مراد سچ کی ہے اس کی طرف رجوع مراد ہے۔ مرزاقادیانی نے اس بات کے ثبوت کے لئے کہ آتھم ڈرگیا اپنا پورا زور ختم کردیا۔ بڑے بڑے اشتہار دئیے۔ آتھم کو لکھا کہ قسم کھا جاؤ کہ ڈرے نہیں تو ایک ہزار بلکہ دوہزار بلکہ تین ہزار بلکہ چار ہزار انعام دوںگا۔ آتھم نے بجواب اس کے لکھا کہ قسم کھانا میرے مذہب میں منع ہے اور انجیل کا حوالہ دیا۔ مرزاقادیانی نے بجواب اس کے لکھا کہ عیسائیوں کے پیشواؤں نے عدالت میں قسمیں کھائی ہیں۔ آتھم نے لکھا کہ مجھے بھی عدالت میں طلب کرلو۔ عدالت کے جبر سے میں بھی قسم کھالوںگا۔ (لیکن کبھی مرزاقادیانی میں یہ جرأت نہ ہوئی) ایک موقع پر مرزاقادیانی نے بدحواس ہوکر یہ بھی لکھ دیا کہ: ’’آتھم نے عین جلسہ مباحثہ میں حق کی طرف رجوع کر لیا تھا۔ اس وجہ سے پیشین گوئی پوری نہ ہوئی۔‘‘ (کشتی نوح ص۶، خزائن ج۹ ص۶) میں لکھتے ہیں۔ ’’اس (آتھم) نے عین جلسہ مباحثہ میں ستر معزز آدمیوں کے روبرو آنحضرتﷺ کو دجال کہنے سے رجوع کیا اور پیشین گوئی کی بنا یہی تھی کہ اس نے آنحضرتﷺ کو دجال کہا تھا۔‘‘ مرزاقادیانی کی حالت پر افسوس ہے۔ اگر یہ بات سچ ہے کہ اس نے عین جلسہ میں رجوع کرلیا تھا تو آپ نے جلسہ کے اختتام کے بعد پیشین گوئی کیوں کی؟ عجب خبط ہے جس کا سر ہے نہ پیر۔ تاویل نمبر:۳ تیسری تاویل مرزاقادیانی نے سب سے لطیف یہ کی کہ عبداﷲ آتھم چونکہ میری پیشین گوئی سے ڈر گیا اور بہت گھبرایا۔ اس گھبراہٹ نے اس کی زندگی کو تلخ کردیا۔ یہی مصیبت اور تلخی ہاویہ ہے۔ جس میں وہ گرا۔ لہٰذا پیشین گوئی پوری ہوگئی۔ باقی رہی موت کی پیشین گوئی تو وہ اصل الہامی عبارت میںنہیں ہے۔ مطلب یہ کہ وہ مرزاقادیانی نے اپنی طرف سے ۱؎ بغیر الہام کے کردی تھی۔ اصل ۱؎ علاوہ ازیں مرزاقادیانی! آپ کا دعویٰ ہے کہ جب بھی میں نے کوئی بات کہی تو خدا کے حکم سے کہی۔ اپنی جانب سے میں نے کبھی نہ کچھ کہا نہ کیا۔ (مواہب الرحمن ص۳، خزائن ج۱۹ ص۲۲۱) تو سوال یہ ہے کہ اس موقع پر آپ نے خدائی الہام کے بغیر اپنی جانب سے موت کا پخ کیوں لگایا؟ اور اگر آپ نے لگایا جیسا کہ امر واقعہ ہے تو آپ کا نہ یہ فعل درست نہ دعویٰ درست۔ آپ کی اس تاویل نے آپ کے جھوٹ میں دو نمبروں کا اور اضافہ کردیا اور اسے عذر گناہ بدتر از گناہ بنادیا۔