احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
اقرار کیا ہے۔ (ازالتہ الاوہام ص۱۲۰، خزائن ج۳ ص۱۵۸ حاشیہ) نہ کہ فارسی الاصل ہونے کا، اور سمرقند فارس میں نہیں ہے۔ لطف یہ کہ مرزاقادیانی کا یہ اقرار بھی غلط ہے۔ وجہ یہ کہ جب مرزاقادیانی نویں صدی سے چودھویں صدی تک ہندوستان میں رہنے سے ہندی الاصل نہ بنے تو ان کے آباؤاجداد سمرقند میں چند روزہ قیام سے سمرقندی الاصل کیونکر ہوسکتے ہیں۔ غرض مرزاقادیانی نہ سلمانی النسل ہیں نہ فارسی الاصل۔ بلکہ سمرقندی الاصل بھی نہیں۔ پھر حافظ صاحب ناحق غلط نویسی میں مصروف ہیں۔ ناظرین! مختلف اقسام کی غلطیوں میں پندرہ دیباچہ کی اور پینتیس کتاب کی یہ پچاس غلطیاں آپ کے سامنے ہیں۔ اسے مرزاقادیانی کی صداقت کے پچاس زبردست نشان اور حافظ صاحب کی غیر معمولی کتاب کا پچاس معجزہ سمجھنا چاہئے۔ ابھی ایسی ہی اتنی اور بھی غلطیاں ہیں کہ سب لکھی جائیںتو حافظ صاحب کی کتاب کی تعداد صفحات ۱۸۴ سے زیادہ ہی ہوںگی۔ لیکن اس کا نمونہ ہی اتنا ہوگیا ہے کہ میرا لکھتے لکھتے اور آپ کا دیکھتے دیکھتے جی گھبراگیا ہے،۔ لیکن جب کتاب کی یہی کائناب ہی تھی تو آخر میں کیا کرتا۔ مجبور تھا اچھا لیجئے اب تھوڑی دیر ترتیب مضامین کی بے قاعدگیوں کی بھی سیر کر لیجئے۔ ترتیب مضامین بے قاعدگیاں حافظ صاحب کی ۱۸۴ صفحہ کی کتاب سے اگر ان کی گالیوں، غیر متعلق، بیکار اور مکرر باتوں کو نکال دیا جائے تو زیادہ سے زیادہ دو جز ۱؎ (۳۲صفحہ) کی کتاب رہ جائے گی۔ پھر بھی اس کو مولوی صاحب کی کتاب راہ حق کا جواب کہنا مشکل ہوگا۔ کیونکہ ساری کتاب میں بس مولوی صاحب کے خطوط ۲؎ ہی کا رونا ہے۔ راہ حق متعلقہ ردقادیان کا دوچار مقام کے سوا کہیں ذکر بھی نہیں۔ باایں ہمہ حافظ صاحب نے نور ہدایت کے نیچے بجائے (بجواب خطوط مولوی صاحب) نہ معلوم کیوں (بجواب رسالہ ردقادیان) لکھا ہے۔ اس کا کافی اندازہ ان کی مذکورہ غلطیوں اور ذیل کی بے قاعدگیوں سے بھی ہوسکتا ہے۔ واضح رہے کہ مرزائی رسالہ ۳؎ (مسلمانوں کا اس زمانہ کا امام کون ہے) کا مولوی ۱؎ اور اگر غلطیاں بھی حذف کر دی جائیں تو ۱۸۴ کی بجائے صفر ہی رہ جائے گا۔ ۲؎ افسوس کہ وہ خطوط حافظ صاحب کے سوا نہ مولوی صاحب کے پاس ہیں نہ میرے سامنے۔ ۳؎ افسوس کہ یہ رسالہ بھی باوجود بڑی تلاش کے مجھے کہیں نہ مل سکا۔