احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
بادل ناخواستہ رنگون سے ان کو اپنا ڈیرہ اٹھانا پڑا۔ لیکن چلتے چلتے ایک مطبوعہ اشتہار اور ایک قلمی تحریر دستی پریس میں چھاپ کر خاص خاص لوگوں کو دیتے گئے۔ جن کی نقل حسب ذیل ہے۔ خواجہ کمال الدین کی طرف سے مطبوعہ آخری اشتہار خدا واسطے مسلمان غور کریں۔ اس شہر میں چند ہفتوں سے خواجہ کمال الدین صاحب وارد ہیں۔ ان کی خدمات اور ان کے کام کے متعلق میں یہاں کچھ کہنا نہیں چاہتا۔ جس معاملہ میں یہاں چند اصحاب نے ایک چرچا کر رکھا ہے۔ اس کے متعلق میں (منشی عبدالقادر لاہوری مرزائی) کچھ عرض کرتا ہوں۔ خواجہ صاحب نے اپنے پبلک لیکچروں میں اپنے عقیدہ کا اظہار کردیا۔ ان سے جو آٹھ سوال پوچھے گئے۔ ان کا جواب جوبلی ہال میں انہوں نے دے دیا۔ جو باعث ۱؎ اطمینان ہوا لیکن اب ایک طرف سے یہ آواز آتی ہے کہ خواجہ صاحب کے اعلان کردہ ۲؎ عقائد تو درست ہیں۔ لیکن جس کے وہ مرید ہیں وہ مدعی نبوت ہے اور وہ کافر ہے۔ خود خواجہ صاحب نے کئی دفعہ رنگون پبلک کے سامنے اعلان کیا کہ وہ آنحضرتﷺ کو خاتم النبیین مانتے ہیں اور آنحضرتﷺ کے بعد مدعی نبوت کو کافر کاذب اور خارج از دائرہ اسلام سمجھتے ہیں۔ لیکن ساتھ ہی خواجہ صاحب نے اس بات پر بھی زور دیا کہ مرزاقادیانی قادیانی مدعی نبوت نہ تھے۔ اس بات کے لئے مجھے مرزاقادیانی کی بعض تصانیف دیکھنے کا موقع ملا ہے۔ مرزاقادیانی نے ۱۸۹۲ء میں ایک اشتہار دہلی میں دیا تھا۔ پھر جامع مسجد میں کھڑے ہوکر اس اشتہار کے مطلب کو حلفاً بیان کیا تھا۔ اس اشتہار میں ذیل کے الفاظ درج ہیں۔ ’’اس عاجز نے سنا ہے کہ اس شہر کے بعض اکابر علماء میری نسبت یہ الزام مشہور کرتے ہیں کہ یہ شخص نبوت کا مدعی، ملائک کا منکر، بہشت ودوزخ کا انکاری اور ایسا ہی وجود جبرائیل اور لیلتہ القدر اور معجزات ومعراج نبوی سے بکلی منکر ہے۔ لہٰذا میں اظہاراً للحق عام وخاص اور تمام بزرگوں کی خدمت میں گزارش کرتا ہوں کہ یہ الزام سراسر افتراء ہے۔ میں نہ نبوت کا مدعی ہوں اور نہ معجزات اور ملائک اور لیلتہ القدر وغیرہ سے منکر۔ بلکہ میں ان تمام امور کا قائل ہوں جو اسلامی ۱؎ اپنے منہ میاں مٹھو بننا اسی کو کہتے ہیں۔ ۲؎ غلط یہ آواز کسی طرف سے نہیں آئی۔ بلکہ یہ آواز آئی کہ خواجہ صاحب کا یہ اعلان مکروفریب ہے۔ وہ اپنے عقائد اس کے خلاف اپنی تصانیف میں لکھ چکے ہیں۔ جن سے انہوں نے اب تک توبہ کی نہ اب کرتے ہیں۔