احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
اشتہار میں مرزاقادیانی کی چند وحیاں ہیں۔ جن میں مسلمانوں کی تکفیر اور اپنی بڑائی کا گیت گایا ہے۔ راقم الحروف آٹھ دس اشتہار اپنے ہمراہ لایا ہے۔ ۹… شہر بہاولپور میں ایک مجلس مشاعرہ کی ہوتی ہے اور اب اس میں بجائے واہی تباہی اشعار کے غلمدیوں کے رد کے مضامین نظم کئے جاتے ہیں اور روزانہ کوئی عمدہ نئی نظم جامع مسجد کے مشرقی دروازہ پر چسپاں کی جاتی ہے۔ اس قسم کی کئی دلچسپ نظموں کی نقل راقم الحروف اپنے ہمراہ لایا ہے۔ ۱۰… ریاست میں کچھ شیعہ بھی ہیں۔ حکومت کی طرف سے تو دنیاوی امور میں شیعہ سنی ہندو عیسائی کا کوئی امتیاز نہیں۔ حتیٰ کہ غلمدیوں کو بھی سیرۃ النبی کے فرضی نام سے جلسے کرنے کی اجازت مل گئی۔ لیکن عام طور پر مسلمان جس طرح غلمدیوں کو دین اسلام کا مخالف جانتے ہیں۔ اسی طرح شیعوں کو بھی۔ خدا کا کرنا یہ کہ انہیں شیعوں میں ایک سید صاحب (نوٹ: حضرت مولانا سید محمد علی شاہ صاحبؒ ساکن پپلی راجن ضلع بہاولپور مراد ہیں۔ جن کا تذکرہ راقم کی کتاب ’’فراق یاراں‘‘ میں تفصیل سے ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔ مرتب) کو توفیق ملی اور وہ سنی ہوگئے۔ چونکہ ذی علم بھی ہیں۔ اس لئے ان سے بہت ہدایت ہورہی ہے۔ ’’بارک اﷲ علینا وعلیہ‘‘ اپنے تبدیل مذہب کے اسباب اور ہدایت کے واقعات وہ خود ہی لکھ کر انشاء اﷲ تعالیٰ بھیجیںگے جو النجم میں شائع ہوںگے۔ ’’ہذا اٰخر الکلام والحمد ﷲ رب العالمین والصلوٰۃ والسلام علیٰ خاتم النبیین وعلیٰ الہ وصحبہ اجمعین‘‘ لکھنؤ میں غلمدیوں کی پریشانی اور بے چینی عجب تماشا ہے۔ مقدمہ ہو بہاولپور میں اور بے چین ہوں لکھنؤ کے غلمدی۔ مرزاقادیانی کے خلیفہ اوّل نورالدین ۱؎ کے وقت سے اب تک غلمدیوں کو لکھنؤ میں ۱؎ ندوۃ العلماء کے ایک جلسہ میں موسیو بشیر پاپائے قادیان لکھنؤ آئے۔ ان کو مناظرہ کی دعوت دی گئی۔ لیکن انہوں نے حمت نہ کی۔ مگر یہاں سے جاکر نورالدین کے سامنے اپنے فرار کا رونا روئے۔ انہوں نے مفتی محمد صادق ایڈیٹر اخبار بدر اور مفتی سرور شاہ اور میر قاسم علی دہلوی کو حضرت والد ماجد دامت برکاتہم سے مناظرہ کے لئے لکھنؤ بھیجا۔ اخبار بدر میں اعلان بھی ہوا مگر لکھنؤ پہنچ کر ان تینوں نے صاف کہہ دیا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہم کو زبانی مناظرے سے منع کیا ہے۔ لہٰذا ہم مناظرہ نہ کریںگے۔ یہ ذلت کچھ کم نہ تھی کہ اخبار میں اعلان دے کر اس طرح کروفر سے آئے اور یوں بھاگے۔