احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
اسلام کا ہے کہ کبھی وہم بھی نہ ہوتا تھا کہ کوئی شخص اسلام کا دعویدار بن کر ختم نبوت کا انکار کر سکے گا یا اس انکار کے بعد پھر اس منکر کو کوئی شخص مسلمان سمجھنے کی جرأت کرے گا۔ مگر مرزاغلام احمد قادیانی نے پر مکروفریب ڈھٹائی سے اس ناشدنی کفر کا ارتکاب کر کے شریعت الٰہیہ سے دجالیت کا خطاب حاصل کرلیا اور پھر اپنے کو مسلمان کہتا اور کہلواتا ہے۔ اس موقع پر یہ ظاہر کردینا بھی خالی از فائدہ نہیں کہ اس معرکہ میں مرزائی اپنے مرشد سے بھی سبقت لے گئے۔ مرزا کا طرز عمل یہ تھا کہ ابتداء میں تو وہ دعویٰ نبوت سے برملا انکار کرتا رہا اور کہتا رہا کہ: ’’من نیستم رسول ونیاوردہ ام کتاب‘‘ اور ’’ہر نبوت رابروشد اختتام‘‘ مگر اس کے بعد بتدریج اس نے نبوت کا دعویٰ شروع کیا۔ اس دعویٰ میں اگرچہ کوئی حد بلند پروازی کی باقی نہیں رہی اور ختم نبوت کا صاف انکار ہے۔ مگر پھر بھی جب کوئی ایسا موقع پیش آجاتا ہے تو نبوت کا اقرار کر لیتا تھا۔ ختم نبوت کے معنی میں البتہ کچھ رکیک تاویلات کرتا تھا۔ اپنے دعویٰ نبوت کو بھی مجازی کہہ دیتا تھا۔ گویہ محض اس کا فریب تھا۔ لیکن پھر بھی ایک پردہ تھا۔ برائے نام سہی۔ لیکن مرزائی صاحبان بالخصوص قادیانی پارتی اس پردہ میں بھی نہ رہی اور کھلم کھلا ختم نبوت کا انکار اور مرزاقادیانی کے نبی ورسول ہونے کا اور اس کے منکرین کے کافر ہونے کا اظہار کر رہی ہے۔ ختم نبوت کی بحث میں علمائے اسلام کی طرف سے متعدد مستقل تصانیف ہوچکی ہیں۔ خاص کر النجم لکھنؤ نمبر۱۳ ج۱۰ جس میں جناب (امام اہل سنت) مولانا محمد عبدالشکور صاحب نے لکھا ہے کہ خلیفہ نور الدین قادیانی نے ممدوح کے مناظرہ کے لئے مولوی سرور شاہ، مفتی محمد صادق میر قاسم علی دہلوی کو لکھنؤ بھیجا اور ان لوگوں نے زبانی مناظرہ سے گریز کر کے تحریری کی خواہش کی۔ چنانچہ ممدوح نے ایک مضمون ختم نبوت پر اور ایک حیات مسیح علیہ السلام پر لکھا جو النجم نمبر مذکور میں درج ہے۔ آج تک کسی مرزائی نے اس کا جواب نہ دیا۔ اب ہم یہاں بہت اختصار کے ساتھ ایک نئے طرز سے چند دلائل لکھتے ہیں۔ کچھ عقلی اور کچھ نقلی اور امید ہے کہ انشاء اﷲ تعالیٰ طالب حق کے لئے کافی ہوںگے۔ ختم نبوت کی روشن دلیل ۱…قرآن مجید کا اعلان عام قرآن مجید کو اﷲتعالیٰ نے ’’تبیاناً لکل شیٍٔ‘‘ فرمایا اور قرآن مجید میں جابجا