احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
لہٰذا مرزائیوں کے لئے اس لفظ کا استعمال ایک طرح کا غصب ہوگا۔ کسی مسلمان نے کبھی اس فرقہ کو احمدی لکھا ہو تو یہ اس کی ناواقفیت ہے یا سبقت قلم۔ ’’عافانا اﷲ من جمیع ما یکرہ‘‘ پہلا باب رنگون میں مسلمانوں اور مرزائیوں کے مقابلہ کے واقعات خواجہ کمال الدین صاحب جو مرزائیوں کی لاہوری پارٹی کے سرگرم مبلغ بلکہ اس پارٹی کے وزیراعظم ہیں۔ پہلے لاہور میں وکالت کرتے تھے۔ مگر اس میں چنداں کامیابی نہ تھی۔ لہٰذا اس کو ترک کر کے آپ نے سارے ہندوستان میں اعلان کردیا کہ میں تبلیغ اسلام کے لئے لندن جاؤںگا۔ مسلمان اس دلفریب لفظ کو سن کر گرویدہ ہوگئے اور خوب خوب چندہ دیا۔ خواجہ صاحب لندن تشریف لے گئے اور وہاں خوب عیش سے ہوٹلوں میں قیام فرماتے ہوئے مرزائیت کی ترویج میںمشغول ہوئے۔ مسلمانوں کی برابر سادہ لوح قوم شاید ہی دوسری ہو۔ غالباً آج کوئی عیسائی ان سے کہے کہ میں تبلیغ اسلام کا کام کروںگا۔ مجھے چندہ دو تو وہ اس کو بھی چندہ دینے کے لئے آمادہ ہوجائیں۔ خواجہ صاحب کی جماعت نے ایک انگریزی ترجمہ قرآن مجید تیار کیا اور اس کے لئے مسلمانوں سے چندہ مانگا۔ دوسرے مقامات سے جس قدر رقمیں ملی ہوں ان کا تو حساب نہیں۔ صرف رنگون سے تقریباً سولہ ہزار روپیہ دیاگیا۔ وہ ترجمہ لندن میں چھپوایا گیا اور اب معقول قیمت پر بیچا جارہا ہے۔ اس ترجمہ میں شروع سے لے کر آخر تک تمام خرافات مرزائیت کے بھرے ہوئے ہیں۔ جو دین اسلام کے بالکل خلاف ہیں۔ جیسا کہ عنقریب نمونہ اس کا پیش کیا جائے گا۔ خواجہ کمال الدین کی نظر برما پر اسی سلسلہ میں خواجہ صاحب کو رنگون کی طرف توجہ ہوئی اور آپ نے بعض اہل رنگون سے خط وکتابت کر کے (ماہ ستمبر ۱۹۲۰ء کی ابتدائی تاریخوں میں) رنگون تشریف لانے کا ارادہ ظاہر کیا۔ رنگون تشریف لانے سے آپ کے دو مقصد تھے۔ اوّل! یہ کہ صوبہ برہما میں مرزائیت کی اشاعت کریں۔ دوم! یہ کہ مسلمانوں سے جن کے دین کی بیخ کنی آپ فرماتے ہیں۔ چندہ بھی لیں۔ سنا ہے کہ بعض تاجران رنگون نے ان سے وعدہ کرلیا تھا کہ کم از کم ایک لاکھ روپیہ چندہ کر کے فراہم کر