احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
سمجھنے لگے۔ خواجہ صاحب یا اور کوئی مولوی صاحب ان اعتراضات کا جواب دیں۔ خواجہ صاحب نے ان اعتراضات کا جواب دینے کے لئے جو جلسہ منعقد کیا اس جلسہ میں باستدعائے خواجہ صاحب، ان چاروں اعتراضوں کے جواب مع ایک نہایت مختصر اور فیصلہ کن تحریر کے خواجہ کو دئیے گئے۔ لیکن خواجہ صاحب نے نہ تو اعتراضات کے جوابات اہل جلسہ کو پڑھ کر سنائے نہ اس تحریر کا کچھ جواب دیا۔ بات ختم ہوچکی اور حق اچھی طرح واضح ہوگیا۔ حضرت مولانا صاحب موصوف الصدر عم فیضہ کے مواعظ حسنہ نے علاوہ اور بہت سے فوائد دینیہ کے عام طور پر مسلمانوں کو خواجہ کمال الدین اور ان کے پیغمبر مرزاغلام احمد قادیانی کے عقائد ومذہب سے کافی آگاہی بخشی۔ نیز مسلمانوں کو یہ بھی معلوم ہوا کہ خواجہ کمال الدین وغیرہ نے جو ترجمہ قرآن شریف کا انگلش میں شائع کیا ہے۔ جس کے لئے سولہ ہزار روپیہ مسلمانان رنگون نے دیا اس ترجمہ میں شروع سے آخر تک کھلم کھلا مرزائیت کی باتیں درج ہیں جو دین وایمان کے بالکل خلاف ہیں اور مسلمانوں کا روپیہ بجائے ترجمہ قرآن کے، مرزائیت کی اشاعت میں صرف ہوا ہے۔ ان سب امور کا نتیجہ یہ ہوا کہ خواجہ صاحب کے چندہ میں کچھ خلل پڑ گیا اور بعض امراء کو جو ان کے طرف دار ہیں یہ خیال بھی پیدا ہوا کہ عام مسلمانوں کی ناراضی کا کم سے کم یہ اثر ضرور ہوگا کہ قوم میں جو عزت ہماری ہے وہ قائم نہ رہے گی۔ اس خیال نے اعلیٰ طبقہ میں کچھ جنبش پیدا کی اور اتمام حجت میں شاید کچھ کمی تھی خدا نے پوری کر دی۔ یعنی سرجمال صاحب کی کوشش بھی خواجہ صاحب کو اظہار حق یا قبول حق پر آمادہ نہ کرسکی۔ مناظرہ کی تیاری سرجمال صاحب رنگون کے بڑے دولت مند شخص ہیں اور خواجہ صاحب کے میزبان بھی ہیں۔ انہوں نے ملا احمد صاحب بن ملا داؤد صاحب کو بلا بھیجا اور بالآخر مناظرہ کا جلسہ کرنے کا وعدہ کرلیا۔ پختہ زبان دے دی۔ تاریخ بھی ۲۸؍ستمبر ۱۹۲۰ء مقرر کردی۔ طرفین کے شرکائے جلسہ کی تعداد بھی معین کر دی اور جوبلی ہال کے پاس جس مکان میں خواجہ صاحب فروکش ہیں وہی مکان جلسۂ مناظرہ کے لئے معین کیا اور یہ بھی اصرار کیا کہ علمائے مسلمین سے سوا جناب مولانا عبدالشکور صاحب اور جناب مولانا مفتی احمد بزرگ صاحب عم فیضہما کے کوئی شریک جلسہ نہ ہو۔ ہمارے علمائے کرام نے قطع حجت کے لئے سب باتیں منظور کر لیں۔ سرجمال صاحب نے ملا احمد داؤد صاحب سے کہا کہ کل ۲۷؍ستمبر کو وقت آغاز جلسہ کا بتلادوںگا۔