احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
کو بلوائیں گے جو یہاں کے مفتی صاحبان کو بروئے تعلیم قرآن قائل کردیںگے کہ مسیح مرگیا۔ بشرطیکہ یہ صاحب اگر تحریری بحث کرنے کا وعدہ دیں تو ایسا ہوسکتا ہے۔ محبت اور آشتی سے معاملہ طے ہوسکتا ہے۔ البتہ ہمارے پاس ہماری اس تحریر کا مخاطب کوئی پیشہ ور نہیں ہے۔ اخیر میری یہ عرض ہے کہ مدتوں بعد ایک شخص ہم میں پیدا ہوا ہے۔ جس نے فرقی تنازعات سے علیحدہ ہوکر منکران اسلام کو اپنا مقابل بنایا۔ اس کی تحریریں تقریریں فرقی عقائد اور امتیازیوں سے خالی ہیں۔ لللّٰہ اس کی راہ میں نہ آؤ اور اسے اس کے حال پر چھوڑ دو۔ المشتہر: منشی عبدالقادر، تابنو روڈ رنگون۔ خواجہ صاحب کی دوسری تحریری دستی پریس کی بسم اﷲ الرحمن الرحیم! ایک ضروری اطلاع ’’نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم۰ اما بعد!‘‘ دوران قیام رنگون میں مجھ سے کئی دفعہ میرے عقائد کے متعلق پوچھا گیا اور میرے نزدیک ایک مسلمان کا حق ۱؎ ہے وہ دوسرے مسلمان سے ایسا سوال کرے اس کے جواب میں میں نے مختلف لیکچروں ۲؎ میں اپنے عقائد کھول کر بیان کر دئیے۔ پھر بعض مولانا صاحبا ن کے اشارے پر بعض احباب نے مجھے خط لکھے۔ جس کا جواب بھی میں نے مفصل دے دیا۔ اگر وہ بجنسہ عام پبلک میں سنا دیا جاتا تو یہ تنازع ختم ہو جاتا۔ لیکن ایسا نہ کیاگیا۔ اس لئے اب میں اپنا عقیدہ محض دوستوں کی درخواست پر شائع بھی کردیتا ہوں۔ وھو ہذا! ’’اشہد ان لا الہ الا اﷲ واشہد ان محمد اعبدہ ورسولہ۰ آمنت باﷲ وملائکتہ وکتبہ ورسلہ والیوم الآخر والقدر خیرہ وشرہ من اﷲ تعالیٰ والبعث بعد الموت‘‘ میں خدا کو ایک جانتا ہوں اور حضرت محمدﷺ کو نبی برحق اور آپؐ پر سلسلہ رسالت ونبوت کو منقطع اور ختم مانتا ہوں اور آپ کے بعد مدعی نبوت کا کافر کاذب اور خارج از اسلام سمجھتا ہوں۔ میں اپنی ہدایت کے لئے اوّل قرآن کو پھر حدیث اور اس کے بعد امام اعظم ۱؎ خدا خدا کر کے آپ نے حق تو تسلیم کیا پہلے تو اس سوال کو چلتی ہوئی گاڑی میں روڑا اٹکانا کہتے تھے۔ ۲؎ چہ خوش سوال تحریری جواب زبانی۔