احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
ہم دیکھتے ہیں کہ مرزاقادیانی کی تالیفات وتصنیفات میں یہ تینوں قسمیں جھوٹ کی موجود ہیں اور اس کثرت سے ہیںکہ کوئی شخص ان کو یکجا کرنا چاہے تو بڑی ضخیم کتاب بن جائے۔ یہاں ہم تینوں قسموں کی کچھ کچھ مثالیں لکھتے ہیں۔ جن کی تعداد انشاء اﷲ تعالیٰ ایک درجن سے زائد ہوگی۔ نمونہ کے طور پر چند مثالیں یہاں درج ہیں۔ ۱…مولوی اسماعیل علی گڑھی کی تالیف کے سلسلہ میں جھوٹ مرزاقادیانی اپنی کتاب اربعین میں لکھتے ہیں۔ ’’مولوی غلام دستگیر قصوری اور مولوی اسماعیل علی گڑھ والے نے میری نسبت قطعی حکم لگایا کہ اگر وہ کاذب ہے تو ہم سے پہلے مرے گا اور ضرور ہم سے پہلے مرے گا۔ کیونکہ کہ کاذب ہے۔ مگر جب ان تالیفات کو دنیا میں شائع کرچکے تو پھر بہت جلد آپ ہی مرگئے۔‘‘ (اربعین نمبر۳ ص۹، خزائن ج۱۷ ص۳۹۴) حالانکہ ان دونوں نے اپنی کسی کتاب میں یہ مضمون نہیںلکھا۔ کتاب ’’دعاوی مرزا‘‘ میں اس جھوٹ کو سچ ثابت کرنے والے کے لئے پانچ سو روپیہ انعام کا اعلان ہوا۔ پھر صحیفۂ رحمانیہ نمبر اوّل مطبوعہ ۱۳۳۲ھ میں پھر صحیفہ محمدیہ نمبر۸ مطبوعہ ۱۳۳۵ھ میں مطالبہ کیاگیا۔ مگر کسی مرزائی نے آج تک جواب نہ دیا نہ دے سکتا ہے۔ ۲…مباہلہ سے متعلق مرزاقادیانی کا سفید جھوٹ اخبار بدر قادیان مورخہ ۲۷؍دسمبر ۱۹۰۶ء میں مرزاقادیانی کا قول ہے کہ: ’’جتنے لوگ مباہلہ کرنے والے ہمارے سامنے آئے سب کے سب ہلاک ہوئے۔‘‘ حالانکہ سوا صوفی عبدالحق صاحب کے کسی سے مرزاقادیانی نے مباہلہ نہیں کیا اور صوفی صاحب اب تک زندہ ہیں۔ مرزا البتہ مرگیا۔ مگر امتیوں کی کذب پرستی قابل داد ہے کہ اپنے پیغمبر کے اس جھوٹے دعویٰ کو سچ مان کر اب تک یہی کہے جاتے ہیں۔ خواجہ کمال الدین پیغام صلح مطبوعہ ۲۱؍دسمبر ۱۹۱۶ء میں لکھتے ہیں۔ ’’کئی ایک مخالفین بالمقابل کھڑے ہوکر اور مباہلہ کر کے اپنی ہلاکت سے خدا کے اس مامور کی صداقت پر مہر لگاگئے۔‘‘ سچ ہے کاذب کے پیرو بھی کاذب ہی ہوتے ہیں۔ (یا یوں کہئے کہ خواجہ صاحب کی گواہی پر چور کا گواہ گرہ کٹ۔ کا مثل صادق آتا ہے) ۳…ایک سانس میں تین جھوٹ مرزاقادیانی (اربعین نمبر۳ ص۱۷، خزائن ج۱۷ ص۴۰۴) میں فرماتے ہیں۔ ’’یہ ضرور تھا کہ قرآن شریف اور احادیث کی پیش گوئیاں پوری ہوتیں۔ جن میں لکھا تھا کہ مسیح موعود جب ظاہر