احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
لکھوا کر بھیجا ہے۔ نقل کیا جاتا ہے۔ جس کے دیکھنے سے حضرت اقدس کی کرامت اور گروہ مرزائیہ کی گمراہی کا پورا پتہ چلتا ہے۔ وہ خط یہ ہے۔ اسرار نہانی کے متعلق ایک خوفناک خواب فرقہ قادیانی سے دو شخص مقام کاس نگر میں ایک گودام دارچرسہ کے پاس پہنچے اور ایک کتاب مو سومہ اسرار نہانی مفت گودام دار صاحب کو اس نے دی اور زبانی بھی اپنی بہت کچھ صفائی دکھلائی۔ یہاں تک کہ گودام دار صاحب کے عقیدہ میں بھی خرابی پیدا ہوگئی۔ خدا کی شان کہ چند روز کے بعد انہوں نے یعنی گودام دار صاحب نے ایک خواب دیکھا کہ ایک دریا بہت بڑا ہے اور میں پار اترنا چاہتا ہوں۔ مگر گھاٹ پر دوبوچے۔ منہ کھولے ہوئے بیٹھے ہیں اور مجھ کو نگل جانے کو چاہتے ہیں۔ میں بہت پریشان کھڑا تھا کہ اس اثنا میں حضرت افضل الفضلاء اکمل الکملا جناب مولانا سید محمد علی صاحب عم فیضہم باشوکت وشان تشریف فرما ہوئے اور مجھ سے فرمایا کہ جوان خوف مت کھاؤ۔ اڑ کر پار ہو جاؤ۔ اس ارشاد کے وقت حضور نے اس نحیف کے پشت پر ہاتھ بھی پھیرا۔ خدا کی شان کہ میں اڑ کر دریا پار ہوگیا اور ان بوچوں سے نجات حاصل ہوگئی۔ اس کی صبح سے ہمارا عقیدہ جناب مولانا صاحب کی طرف خوب درست ہوگیا اور سمجھ گیا کہ کم بخت وہ دونوں قادیانی درحقیقت دوبوچے تھے جو مجھے کھا جانا یعنی میرے ایمان کو لینا چاہتے تھے اور بہکا کر جہنم میں ڈالتے تھے۔ مگر حضرت اقدس نے خدا کے فضل سے دستگیری فرما کر اس سے چھڑایا۔ میں مولانا کامرید نہیں ہوں۔ مگر خدا نے چاہا تو عنقریب حاضر خدمت ہوکر قدم بوسی حاصل کروںگا۔ (راقم عبدالرحیم ساکن گوگری) اے عزیز! تم اس خط کو مکرر پڑھو اور غور کرو کہ ہمارے حضرت اقدس کی یہ کھلی کرامت ہے۔ جس سے صاف ثابت ہوگیا کہ اگلے بزرگوں نے جو مذکورہ خواب کی تعبیر بیان کی ہے وہ نہایت صحیح ہے۔ یعنی اس خواب کا دیکھنے والا کامل اولیاء اﷲ میں ہے اور جو ان کے مخالف ہیں وہ مسلمانوںکے دشمن ہیں۔ ان سے ایسا ہی بچنا چاہئے۔ جیسے انسان کو بوچہ سے بچنا چاہئے اور یہ بھی اس خواب سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے بچنے کے لئے حضرت اقدس ہی کا دامن پکڑنا ضرور ہے۔ اﷲتعالیٰ انہیں کے طفیل سے ان دینی دشمنوں سے بچا سکتا ہے۔ اے عزیز اگر ایسی باتیں بھی دیکھ کر تمہارا ایمان درست نہ ہو تو بڑی افسوس کی بات ہے۔ خدا سے ڈرو اور بری صحبت سے بچو۔ حضرت مولانا یعقوب چرخی قدس اﷲسرہ جو متقدمین کے اکابر اولیاء اﷲ میں سے ہوئے ہیں اپنے رسالہ انسیہ کے ص۳۵ میں تحریر فرماتے ہیں۔