احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
کمالات مرزا دوم چیلنج محمدیہ وصولت فاروقیہ۔ پہلا لطیفہ یعنی اﷲدتہ صاحب کے ۷۲ مطالبات اﷲدتہ صاحب نے کمال یہ کیا ہے کہ پیر بخش صاحب سیکرٹری انجمن تائید الاسلام کی مطبوعہ ۱۶صفحہ کی تقریر میں سے ایک ناتمام ٹکڑا ص۵ سے نقل کر کے اس پر محض بے مغز وبے معنی ۷۲سوالات قائم کردئیے ہیں۔ بس یہی دو باتیں پورے رسالے کی کائنات ہیں۔ پہلے ٹکڑے کی حقیقت یہ ہے کہ پیر بخش صاحب نے اس آیت سے حیات مسیح علیہ السلام کو ثابت کیا ہے۔ ’’وما قتلوہ وما صلبوہ ولکن شبہ لہم وما قتلوہ یقیناً بل رفعہ اﷲ الیہ‘‘ {نہیں قتل کیا یہودیوں نے عیسیٰ کو اور نہ صلیب دی ان کو ولیکن مشابہ کردیا گیا۔ (عیسیٰ کے ایک دوسرا شخص) یہودیوں کے لئے اور نہیں قتل کیا یہودیوں نے عیسیٰ کو یقین کے ساتھ بلکہ اٹھا لیا عیسیٰ کو اﷲ نے اپنی طرف۔} واقعی یہ آیت بڑی وضاحت کے ساتھ مسیح علیہ السلام کے مع جسم زندہ اٹھا لئے جانے پر دلالت کر رہی ہے۔ کیونکہ اﷲتعالیٰ نے قتل کرنے اور صلیب دینے، دونوں کی نفی کر کے فرمایا کہ انہوں نے قتل نہیںکیا۔ بلکہ خدا نے ان کو اٹھالیا۔ زبان عرب میں لفظ بل اضراب کے لئے آتا ہے۔ یعنی مضمون ماقبل کی نفی کر کے اس کے منافی مضمون ثابت کرنے کے واسطے اور رفع یعنی اٹھالینا قتل کے منافی جبھی ہوگا کہ زندہ مع جسم اٹھا لینا مراد لیا جائے۔ ورنہ جیسا کہ مرزائی کہتے ہیں کہ رفع سے یہاں مراد مرتبہ کا بلند کرنا ہے۔ اس صورت میں رفع منافی قتل کے نہ رہے گا۔ منافات چہ معنی، قتل فی سبیل اﷲ تو مرتبہ کی بلندی کا ایک اعلیٰ سبب ہے۔ باقی رہا مرزائیوں کا یہ کہنا کہ مقتول ہونا غیر انبیاء کے لئے باعث بلندی رتبہ ہے اور انبیاء کے لئے باعث ذلت اور شان نبوت کے خلاف ہے۔ ایک نامعقول یہودیانہ مقولہ ہے جو مرزاغلام احمد قادیانی نے یہودیوں سے لیا ہے۔ دین اسلام نے قتل فی سبیل اﷲ کو نبی غیر نبی سب کے لئے بلا تفریق باعث فضیلت قرار دیا ہے۔ سید الانبیائﷺ فرماتے ہیں۔ ’’انی احب ان اقتل فی سبیل اﷲ ثم احیے ثم اقتل ثم احیے ثم اقتل (بخاری)‘‘ یعنی میں آرزو رکھتا ہوں کہ راہ خدا میں قتل کیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں اور پھر قتل کیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں اور پھر قتل کیا جاؤں۔ قرآن شریف میں ہے۔ ’’ویقتلون النبیین بغیر حق‘‘ اور ’’وقتلہم الانبیاء بغیر حق‘‘ یعنی یہودیوں نے نبیوں کو قتل کیا تھا اور خاص سرور انبیائﷺ کے لئے