احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
آپ کے نبوت کو تشریعی اور غیر تشریعی کی طرف منقسم کرنے اور مدعی نبوت تشریعی کو مندرجہ ذیل عبارت میں کافر قرار دینے سے ظاہر ہے۔‘‘ نبوت کی دو قسمیں ہیں۔ اوّل تشریعی جس کے ساتھ نئی شریعت اور نئے احکام ہوں۔ دوم غیر تشریعی یعنی جس کے ساتھ نئی شریعت اور نئے احکام نہ ہوں۔ (پمفلٹ ص۱) ہم نبی ہیں۔ ہاں یہ نبوت تشریعی نہیں جو کتاب کو منسوخ کرے اور نئی کتاب لائے۔ ایسے دعویٰ کو تو ہم کفر سمجھتے ہیں۔ (پمفلٹ ص۲) لیکن اگر ہم جناب مرزاقادیانی کو ان کی اپنی عبارات سے نئی شریعت اور نئے احکام لانے والا صاحب وحی اور صاحب شریعت یعنی تشریعی نبی ہونا ثابت کردیں۔ پھر تو جناب مرزاقادیانی خود اپنے نیز آپ کے اور بزرگان ملت کے اقوال کے ان معنی کے مطابق جنہیں آپ پمفلٹ میں شائع فرماچکے ہیں۔ تشریعی نبوت کا دعویٰ کرنے کی وجہ سے کافر ہوجائیںگے؟ یا پھر تشریعی نبوت کے کوئی اور ایسے معنی بیان کئے جائیںگے جس سے مرزاقادیانی اپنے نیز آپ کے اور بزرگان ملت کے عائد کردہ کفر سے بچ جائیں ؎ الجھا ہے پاؤں یار کا زلف دراز میںلو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا لیجئے! مرزاقادیانی نے خود ہی اپنی مندرجہ ذیل عبارات میں اپنے صاحب شریعت جدیدہ اور صاحب وحی یعنی تشریعی نبی ہونے کا دعویٰ فرمادیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں ’’یہ نکتہ یاد رکھنے کے لائق ہے کہ اپنے دعویٰ کا انکار کرنے والے کو کافر کہنا یہ صرف ان نبیوں کی شان ہے جو خداتعالیٰ کی طرف سے شریعت اور احکام جدیدہ لاتے ہیں۔ لیکن صاحب شریعت کے ماسوا جس قدر ملہم یا محدث ہیں۔ گو وہ کیسی ہی جناب الٰہی میں اعلیٰ شان رکھتے ہوں اور خلعت مکالمہ الٰہیہ سے سرفراز ہوں۔ ان کے انکار سے کوئی کافر نہیں بن جاتا۔‘‘ (تریاق القلوب ص۱۳۰، خزائن ج۱۵ ص۴۳۲) جس کا حاصل یہ ہے کہ چونکہ میں شریعت اور احکام جدیدہ لانے والا نہیں ہوں۔ اس لئے میرا منکر کافر نہیں ہے۔ حالانکہ مرزاقادیانی نے خود صاحب شریعت صاحب وحی اور اپنی وحی کو مثل قرآن کریم خطا سے پاک اور منزہ اور دیگر انبیاء کے برابر بلکہ ان سے بھی افضل ہونے کا دعویٰ فرماکر اپنے اس مندرجہ بالا بیان کی خود تغلیط فرمادی ہے۔ جیسا کہ آپ کی مندرجہ ذیل عبارات سے ظاہر ہے۔ مرزاقادیانی تشریعی نبوت کے مدعی تھے ۱… ’’ماسوائے اس کے یہ بھی تو سمجھو کہ شریعت کیا چیز ہے۔ جس نے اپنی وحی