احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
الفاظ مرزا قادیانی کے یہ ہیں۔ (انوار الاسلام ص۵، خزائن ج۹ ص۶) میں مرزاقادیانی لکھتے ہیں۔ ’’ہاویہ میں گرائے جانا جو اصل الفاظ میں الہام ہیں۔ وہ عبداﷲ آتھم نے اپنے ہاتھ سے پورے کئے اور جن مصائب میں اس نے اپنے تئیں ڈال لیا اور جس طرز سے مسلسل گھبراہٹوں کا سلسلہ اس کے دامنگیر ہوگیا اور ہول اور خوف نے اس کے دل کو پکڑ لیا۔ یہی اصل ہاویہ تھا اور سزائے موت اس کے کمال کے لئے ہے۔ جس کا ذکر الہامی عبارت میں موجود بھی نہیں۔ بے شک یہ مصیبت ایک ہاویہ تھا۔ جس کو عبداﷲ آتھم نے اپنی حالت کے موافق بھگت لیا۔‘‘ ناظرین! ذرا انصاف سے دیکھیں! کبھی تو مرزاقادیانی فرماتے ہیں کہ آتھم نے حق کی طرف رجوع کیا۔ اس لئے وہ ہاویہ میں گرنے سے بچ گیا اور کبھی فرماتے ہیں کہ وہ ہاویہ میں گرا۔ یہ بدحواسی نہیں ہے تو کیا ہے۔ مرزاقادیانی کا یہ لکھنا کہ سزائے موت کا ذکر الہامی عبارت میں نہیں ہے۔ عجب لطیفہ ہے۔ الہامی عبارت میں ہو یا نہ ہو۔ آپ کی پیشین گوئی میں صاف صاف ہے اور آپ نے قسم کھا کر لکھا ہے۔ ’’پندرہ ماہ کے عرصہ میں آج کی تاریخ سے بسزائے موت ہاویہ میں نہ پڑے تو میں ہر ایک سزا کے اٹھانے کے لئے تیار ہوں۔ مجھ کو ذلیل کیا جائے۔ روسیاہ کیا جائے۔ میرے گلے میں رسا ڈال دیا جائے۔ مجھ کو پھانسی دیا جائے۔ ہر ایک بات کے لئے تیار ہوں۔ اﷲ جل شانہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ وہ ضرور ایسا ہی کرے گا۔ ضرور کرے گا۔ ضرور کرے گا۔‘‘ تاویل نمبر:۴ چوتھی بات جو نہایت عجیب وغریب ہے یہ ہے کہ جب آتھم میعاد پیشین گوئی ختم ہونے کے کئی سال بعد یعنی ۲۷؍جولائی ۱۸۹۶ء کو مرگیا تو مرزاقادیانی بہت خوش ہوئے اور فرماتے ہیں۔ میری پیشین گوئی پوری ہوگئی۔ (حقیقت الوحی ص۱۸۵، خزائن ج۲۲ ص۱۹۳) میں ہے کہ: ’’اگر کسی کی نسبت یہ پیشین گوئی ہو کہ وہ پندرہ مہینہ تک مجذوم ہو جائے گا۔ پس اگر وہ بجائے پندرہ کے بیسویں مہینہ میں مجذوم ہو جائے اور ناک اور تمام اعضاء گر جائیں تو کیا وہ مجاز ہوگا کہ یہ کہے کہ پیشین گوئی پوری نہیں ہوئی۔ نفس واقعہ پر نظر چاہئے۔‘‘ جواب اہل انصاف دیکھیں کہ مرزاقادیانی کیا لکھ رہے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں کہ موت کی پیشین گوئی الہام میں تھی ہی نہیں۔ کبھی فرماتے ہیں کہ اس مدت کے بعد بھی وہ مرگیا تو موت کی پیشین