احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
مولانا محمدقاسمؒ بانی دارالعلوم دیوبند اور ختم نبوت منکر صاحب نے چونکہ مولانا صاحب کے کلام سے اجراء نبوت ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ اسی لئے مولانا صاحب کا مسلک ناظرین کے سامنے رکھ دیا جاتا ہے۔ تاکہ ناظرین خود غور فرمائیں: ۱… مولانا اپنے رسالہ تحدیر الناس ص۸پر ارشاد فرماتے ہیں: بالجملہ رسول اﷲﷺ وصف نبوت میں موصوف بالذات ہیں اور سوائے آپ کے اور انبیاء موصوف بالعرض۔ اس صورت میں اگر رسول اﷲﷺ کو اول یا اوسط میں رکھتے تو انبیاء متاخرین کا دین اگر مخالف دین محمدی ہوتا تو اعلیٰ کا ادنیٰ سے منسوخ ہونا لازم آتا۔ حالانکہ خود فرماتے ہیں: ’’ماننسخ من آیۃ اوننسہا نات بخیر منہا او مثلھا‘‘ اور کیوں یوں ہو تو اعطاء دین منجملہ رحمت نہ رہے۔ آثار غضب میں سے ہوجائے۔ ہاں اگر یہ بات متصور ہوتی کہ اعلیٰ درجہ کے علماء کے علوم ادنیٰ درجہ کے علماء سے کمتر اور وون ہوتے ہیں تو مضائقہ بھی نہ تھا۔ پر سب جانتے ہیں کہ کسی عالم کا عالی مرتبت ہونا مراتب علوم پر موقوف ہے۔ یہ نہیں تو وہ بھی نہیں اور انبیاء متاخرین کا دین اگر مخالف نہ ہوتا تو یہ بات ضرور ہے کہ انبیاء متاخرین پر وحی آتی اور افاضہ علوم کیا جاتا۔ ورنہ نبوت کے پھر کیا معنی۔ سو اس صورت میں اگر وہی علوم محمدیؐ ہوتے تو بعد وعدہ محکم انا نحن نزلنا الذکر وانالہ لحافظون کے بعد جو بہ نسبت اس کتاب کے جس کو قرآن کہئے اور بشہادت آیت ونزلنا علیک الکتاب تبیانا الکل شئی جامع العلوم ہے۔ کیا ضرورت تھی اور اگر علوم انبیاء متاخرین علوم محمدی کے علاوہ ہوتے تو اس کتاب کا تبدینالکل شی ہونا غلط ہوجاتا۔ بالجملہ جیسے ایسے نبی جامع العلوم کے لئے ایسی ہی کتاب جامع چاہئے تھی۔ تاکہ علو مراتب نبوت جو لاجرم علو مراتب علمی ہے۔ چنانچہ معروض ہوچکا۔ میسر آئے ورنہ یہ علومراتب نبوت بے شک ایک قول دروغ اور حکایت غلط ہوتی۔ ایسے ہی ختم نبوت بمعنی معروض کو تاخر زمانی لازم ہے۔ انتہی! دیکھئے! مولانا نے صاف تصریح فرمادی ہے کہ آنحضرتﷺ کے بعد ایسا نبی بھی نہیں آسکتا جس کو وحی دین محمدی کے موافق ہو۔ کیونکہ ایسی وحی کی ضرورت ہی کیا ہے اور آنحضرتﷺ کے لئے تاخرزمانی کی بھی تصریح فرمادی ہے۔ باقی مولانا کا اسی رسالہ کے ص۳ پر یہ فرمانا کہ تاخر زمانی (آخری نبی ہونا) میں بالذات کچھ فضیلت نہیں اور اس کو عوام کا خیال فرمانا