احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
نہ کوئی زبانی شہادت قابل وثوق۔ بلکہ اس کے خلاف رسالہ (اشاعۃ السنۃ بابت ۱۱،۱۳۱۰ھ) میں لکھا ہے کہ سلطان محمد سے کئی سوال کئے گئے تھے۔ ان میں تیسرے سوال کے جواب میں وہ لکھتے ہیں۔ مرزاسلطان محمد بیگ کا جواب مرزاقادیانی کو میں جھوٹا اور دروغ گو جانتا تھا اور جانتا ہوں اور میں مسلمان آدمی ہوں خداکا ہروقت شکر گذار ہوں۔ سلطان محمد بیگ بقلم خود (نمبر۶ ج۱۶ ص۱۹۱ سطر۱۳) میں یہ تحریر بائیس برس کی چھپی ہوئی موجود ہے۔ مرزاقادیانی اس وقت خوب زوروں پر تھے۔ مگر اس کا غلط ہونا نہ مرزاقادیانی نے لکھا اور نہ ان کے خلیفہ اوّل نے اس لئے اب جو خط شائع کیا گیا وہ بالکل غلط ہے۔ ہرگز لائق اعتبار نہیں ہوسکتا۔ بلکہ پہلا خط جو ’’اشاعۃ السنۃ‘‘ میں ہے ۔سچا اور لائق اعتبار ہے۔ ۳… مرزامحمود نے جومرزاقادیانی کے مرنے کے پانچ چھ برس کے بعد ایک خط چھاپا ہے۔ اس میں اسی قدر ہے کہ ہم مرزاقادیانی کو پہلے بھی بزرگ سمجھتے تھے اور اب بھی سمجھتے ہیں۔ یہ خط بھی مرزاقادیانی کے انجام آتھم والے مضمون سے غلط ثابت ہورہا ہے۔ کیونکہ مرزاقادیانی اس کی تکذیب کی زیادتی کو لکھ رہے ہیں اور خط سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے کبھی زیادتی ہی نہیں کی۔ ہمیشہ مرزاقادیانی کو بزرگ سمجھتا رہا۔ اگر خط سچا ہے تو مرزاقادیانی جھوٹے ہوتے ہیں اور اگر مرزاقادیانی کی تحریر سچی ہے تو مرزامحمود کی یہ کارروائی جعلی ہے۔ چونکہ مرزاقادیانی کے اقوال سے اس کے خط کی صریح تکذیب ہورہی ہے اور ظاہر ہے کہ مرزاقادیانی آخری عمر تک اسے کوستے رہے اور اپنے سامنے اس کے مرنے کو وعدہ الٰہی بتاتے رہے اور اس کی بی بی سے اپنا نکاح کرنا بیان کرتے رہے۔ پھر اتنے ہونے پر وہ مرزاقادیانی کو کیونکر بزرگ سمجھ سکتا ہے۔ انسانی طبیعت کا اقتضا یہ ہرگز نہیں ہوسکتا کہ ایسے مخالف کو اپنا بزرگ سمجھے۔ خصوصاً جب کہ وہ اپنی ہی پیشین گوئی میں جھوٹا دیکھ رہا ہو۔ ۴… بفرض محال بزرگ سمجھنے سے بھی کچھ نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ مرزاقادیانی سوائے اپنے مریدین کے اور سب کو جہنم ۱؎ میں اوندھا گرا رہے ہیں اور اﷲتعالیٰ کا دشمن قرار ۱؎ الحکم ۲۴؍اکتوبر ۱۸۹۹ء میں تحریر کرتے ہیں۔ آج چودھویں صدی کے سر پر اﷲتعالیٰ کا رسول اس کی طرف سے خلقت کے لئے رحمت وبرکت ہے۔ ہاں جو اﷲ کے بھیجے ہوئے کو نہ مانے وہ جہنم میں اوندھا گرے گا۔