احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
دوسرے علمائے اسلام کے مطالبات کو ابھی رہنے دیجئے۔ صرف خانقاہ عالی جاہ رحمانیہ سے جو رسائل آپ کے پیغمبر صاحب کے ابطال میں شائع ہوئے۔ اگر ہر رسالہ کو ایک مطالبہ سمجھئے تو ایک سو سے زائد مطالبات ہوئے اور اگر ان رسائل کے مضامین کا لحاظ کیا جائے تو ایک ایک رسالے میں بیسیوں مطالبات موجود ہیں۔ اس حساب سے کئی ہزار مطالبات ہو گئے۔ اگر کچھ بھی معیار انصاف ہو تو اپنے خلیفہ صاحب اور ان کے تمام ذریات کو مجبور کیجئے کہ وہ ان رسائل کا جواب ایک ماہ نہیں بلکہ ایک سال میں لکھ دیں۔ اور اگر نہ لکھیں اور ہرگز نہ لکھ سکیںگے۔ ’’ولو کان بعضہم لبعض ظہیرا‘‘ تو آپ پر لازم ہے کہ اپنی توبہ کا اعلان کیجئے اور صدق دل سے تائب ہوکر مرزائیت کی ظلمت وحرص سے نکل کر اسلام کے ظل رحمت ونور میں آجائیے۔ حضرت رحمتہ اللعالمینﷺ کے دامن عاطفت میں پناہ لیجئے۔ آئندہ آپ کو اختیار ہے۔ ’’وما علینا الا البلاغ‘‘ دوسرا لطیفہ… یعنی دلائل حیات مسیح علیہ السلام جاننا چاہئے کہ مسیح علیہ السلام کے زندہ آسمان پر اٹھالئے جانے اور پھر قریب قیامت دنیا میں نازل ہونے کا عقیدہ اہل اسلام کا اجماعی عقیدہ ہے۔ رسول خداﷺ کے وقت سے لے کر صحابہ کرامؓ تابعین تبع تابعین غرضکہ آج تک کسی عالم دین اسلام نے اس عقیدہ سے انکار نہیں کیا اور اس اجماع کی روایت بھی متواتر ہے۔ جیسا کہ النجم لکھنؤ ج۱۰ نمبر۱۳ میں ثابت کیاگیا ہے اور سند اس اجماع کی آیات قرآنیہ واحادیث نبویہ پر ہے۔ وفات مسیح علیہ السلام کا عقیدہ نہ صرف اجماع امت بلکہ قرآن شریف کی آیات کثیرہ اور احادیث صحیحہ بلکہ متواتر کے بالکل خلاف ہے۔ ہندوستان میں سب سے پہلے سرسید علی گڑھی نے یہ مسئلہ ایجاد کیا۔ مرزاغلام احمد اس مسئلہ میں انہیں کے مقلد ہیں۔ مرزاغلام احمد پہلے خود بھی دوسرے مسلمانوں کی طرح معتقد حیات مسیح تھے اور ابتدائً اپنا عقیدہ بدلنے کی وجہ اپنی خانہ ساز وحیواں کو بیان کرتے تھے۔ مگر آخر میں آیات قرآنیہ کو بھی کھینچ تاک کر اپنے مدعا پر منطبق کرنے لگے۔ لہٰذااب میں نمونہ کے طور پر بعض آیات واحادیث کی تقریر ہدیہ ناظرین کرتا ہوں۔ جن سے حیات مسیح علیہ السلام ثابت ہوتی ہے۔ آیات قرآنیہ ۱… ’’ویکلم الناس فی المہد وکہلا ومن الصالحین‘‘ {اور عیسیٰ کلام کریںگے لوگوں سے گہوارہ میں یعنی حالت نوزائیدگی اور بڑی عمر میں نیکوں میں سے