احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
باسمہ سبحانہ! مرزائیت کی موت جملہ مرزائیوں کو واضح ہو کہ میں نے ستمبر ۱۹۲۸ء کے العدل میں ایک مکتوب مفتوح بنام مرزامحمود احمد قادیانی شائع کیا تھا کہ میں مرزا کے انعامی اشتہار دربارہ لفظ توفی کی دوسری شق کے مطابق ثابت کردوںگا کہ اس کے معنی جسم مع روح کو بہئیت کذائی وصورت مجموعی اپنے قبضہ میں لے لینے کے ہیں۔ آپ میرے ساتھ منصفانہ شرائط طے کرنے کے بعد فیصلہ کر لیں۔ لیکن مرزائیت کے علمبردار نے کوئی جواب نہ دیا۔ اس کے بعد مختلف مواقع پر مرزائی مولویوں کو مناظروں میں فیصلہ کی دعوت دی گئی۔ مگر صدائے برنخواست مارچ ۱۹۳۲ء کے رسالہ شمس الاسلام بھیرہ میں مکرر بعنوان ’’اتمام حجت‘‘ اس مضمون کو مشتہر کیاگیا۔ لیکن مرزائیوں کی طرف سے کوئی آمادگی نہ ہوئی۔ العدل وشمس الاسلام کے پرچے بذریعہ رجسٹری خلیفہ قادیان کے پاس بھیجے گئے۔ پھر بھی انہیں مقابلہ کا حوصلہ نہ ہوا۔ حق کا رعب ان کے دل پر مسلط ہوچکا ہے۔ لہٰذا ان میں جرأت نہیں ہے کہ اس فیصلہ پر آمادہ ہوں۔ بھیرہ کے مناظرہ کے موقع پر اسی عنوان سے اشتہار شائع کیاگیا تھا۔ مگر مرزائی مولویوں کو حوصلہ نہ ہوا۔ جملہ مرزائیوں کو لازم ہے کہ اپنے خلیفہ کو اس فیصلہ پر آمادہ کریں۔ ورنہ سمجھ لیں کہ مرزائیت مرگئی۔ لہٰذا اس کی تجہیز وتکفین کر کے میرے ہاتھ پر توبہ کر لیں۔ حجت تمام ہوچکی۔ خدا کے حضور میں تمہارے پاس کوئی عذر نہ ہوگا۔ اگر تمہارے مولوی اس فیصلہ پر آمادہ ہوں تو فوراً اپنے خلیفہ سے اپنی نیابت کی تصدیق حاصل کریں اور خلیفہ صاحب لکھ دیں کہ ان علماء کا ساختہ پرداختہ میرا ساختہ پرداختہ ہے۔ ان کی فتح میری فتح اور ان کی شکست میری شکست ہے۔ خلیفہ صاحب اور ان کے حواری محض دفع الوقتی کر رہے ہیں اور کریںگے۔ مرزائیوں کا فرض ہے کہ اپنا پورا زور ان پر ڈالیں۔ جو مرزائی فیصلہ کرنا چاہے۔ سب سے پہلے سند نیابت حاصل کرے۔ بعد ازاں ثالث اور دیگر شرائط کا فیصلہ کرنے پر آمادگی ظاہر کرے۔ ’’وما علینا الا البلاغ‘‘ ابوالقاسم محمد حسین عفی عنہ مولوی فاضل کولوتارڑ ضلع گوجرانوالہ مورخہ ۲۵؍ستمبر ۱۹۳۲ء