احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
خواجہ کمال الدین کافرار دوسرے دن حسب وعدہ ملا احمد صاحب وقت پوچھنے گئے تو خواجہ کمال الدین بھی مع اور چند اصحاب سرجمال صاحب کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ سرجمال صاحب نے کہا کہ خواجہ صاحب مباحثہ کرنا نہیںچاہتے۔ لہٰذا جلسہ نہ ہوگا۔ ناظرین! غور کریں کہ ایک ادنیٰ سے ادنیٰ کو اپنی زبان کا خیال ہوتا ہے تو کیا سرجمال صاحب جیسے امیر ورئیس کو اپنے ایسے پختہ اقرار کا کچھ خیال نہ ہوا ہوگا۔ ضرور ہوا ہوگا مگر خواجہ صاحب پر ان کا زور نہ چل سکا۔خواجہ صاحب کو یقین کامل ہے کہ کسی واقف کار کے سامنے جاکر اپنی مرزائیت کو ہرگز نہیں چھپاسکتے اور نہ مرزا کے مسلمان اور راست باز، نیک چلن، ہونے کا ثبوت دے سکتے ہیں۔ نبی ورسول ہونا تو بڑی بات ہے۔ ملا احمد صاحب نے خواجہ صاحب سے کہا کہ صاحب یہ تو بڑی مشکل ہوئی۔ اب عام مسلمانوں کی نظر میں یا تو میں جھوٹا قرار پاؤںگا یا آپ۔ خواجہ صاحب نے کہا یہ کچھ بھی نہ ہوگا۔ میں تحریر لکھے دیتا ہوں۔ چنانچہ ایک تحریر لکھ دی جس میں علاوہ انکار مباحثہ کے اور بھی بہت سے لطائف ہیں۔ خواجہ صاحب نے یہ تحریر ملا احمد صاحب کو دے کر کہا کہ یہ تحریر علماء کو دکھلا کر پھر مجھے واپس دیجئے۔ چنانچہ اس کی نقل لے کر تحریر واپس کر دی گئی۔ خواجہ صاحب کی رسوائی کا آخری منظر ملا احمد صاحب نے آخر میں یہ بھی کہا کہ خواجہ صاحب آپ نے کوئی کتاب صحیفہ آصفیہ حضور نظام دکن کو مرزائی بنانے کے لئے لکھی ہے اور کئی ہزار کاپیاں اس کی حیدرآباد دکن میں شائع کی ہیں؟ خواجہ صاحب یہ سن کر سراسیمہ ہوگئے اور کہنے لگے ہاں میں نے لکھی تو ہے، وہ کتاب کس کے پاس ہے۔ ملا احمد صاحب نے کہا کسی کے پاس ہو اس سے کیا مطلب مگر میں خود اپنی آنکھ سے دیکھ کر آیا ہوں کہ آپ نے صحیفہ آصفیہ میں مرزاغلام احمد کو خدا کا نبی، رسول، خدا کا برگزیدہ مرسل، نذیر وبشیر، پیغمبر بہت جگہ لکھا ہے۔ حالانکہ آپ اپنے لیکچروں میں کہتے ہیں کہ میں ان کو نبی نہیں مانتا۔ نہ انہوں نے دعویٰ نبوت کا کیا۔ بولئے آپ نے لکھا یا نہیں؟ خواجہ صاحب نے اس کے جواب میں کچھ نہ کہا۔ ملا احمد صاحب کی یہ تمام گفتگو مفصل لکھوائی گئی ہے جو خواجہ صاحب کی اس آخری تحریر کے ساتھ انشاء اﷲ تعالیٰ ہدیہ ناظرین ہوگی۔ خدا کا شکر ہے کہ اس واقعہ کے ظہور نے چارچاند لگادئیے اور ہر طبقہ پر اصل حقیقت کھل گئی۔