احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
ذرا بھی ارادہ کرے اس پر لعنت خدا کی ہو۔ ہمارے رسول خاتم النبیین ہیں۔ ان پر مرسلین کا سلسلہ قطع ہوچکا ہے اور آپ کے بعد کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ مستقل طریق پر نبوت کا دعویٰ کرے ۔ کیونکہ آپ کے بعد صرف کثرت مکالمہ باقی رہ گیا اور اس کے لئے بھی اطاعت آنحضرتﷺ شرط ہے۔ مجھے جو کچھ حاصل ہوا۔ محض آپ کی اطاعت سے ہوا مجھے اگر اﷲ نے نبی کہہ کر پکارا تو محض مجاز کے طور پر نہ حقیقتاً۔ یہ مرزاقادیانی کی اس مضمون پر آخری تحریر ہے جو سب شبہات کو دور کر دیتی ہے۔ وہ نبوت کو آنحضرتﷺ پر منقطع سمجھتے ہیں اور اس مجازی نبوت کے مدعی ہیں۔ جس کے مدعی حضرت ابن عربی اور حضرت شیخ عبدالقادر گیلانی اور دیگر بزرگان دین رہے ہیں۔ اگر اس تحریر کے بعد کوئی ان کی تکفیر پر اصرار کرے تو اس کا معاملہ خدا سے ہے۔ والسلام فقط! خواجہ کمال الدین بقلم خود، مورخہ ۲؍اکتوبر ۱۹۲۰ء خلاصہ تحریرات واشتہارات جس قدر تحریرات خواجہ کمال الدین کے ساتھ ہوئیں اور جو اشتہارات شائع ہوئے سب ہدیۂ ناظرین ہوچکے۔ اب ان کا نہایت مختصر خلاصہ بھی درج کیا جاتا ہے تا کہ نتیجہ نکالنا ہر شخص کے لئے آسان ہو جائے۔ ۱… خواجہ صاحب کو مناظرہ کی دعوت دی گئی۔ ان کے ملنے والوں نے خاص کر ان کے میزبان نے بھی ان کو مجبور کیا۔ لیکن انہوں نے کسی طرح ہمت نہ کی۔ اس سے ان کی حقیقت سب کو معلوم ہوگئی۔ ۲… حسب عادت رنگون میں بھی خواجہ کمال الدین نے یہی ظاہر کیا کہ نہ میں نے کبھی مرزاغلام احمد قادیانی کو نبی کہا نہ مرزاقادیانی نے نبوت کا دعویٰ کیا۔ ۳… جب علمائے اہل سنت کی طرف سے خواجہ کمال الدین کی کتاب صحیفہ آصفیہ کی تشہیر ہوئی کہ اس میں صاف صاف انہوں نے مرزاقادیانی کو نبی ورسول وپیغمبر لکھا ہے اور خود مرزاقادیانی کی تصنیفات رنگون میں مسلمانوں کو دکھلائی گئیں کہ اس نے بڑی صراحت کے ساتھ دعویٰ نبوت ورسالت کا کیا ہے تو خواجہ صاحب مجبور ہوئے اور انکار کی گنجائش نہ دیکھی۔ ۴… بالآخر خواجہ صاحب نے بڑی بیباکی سے کہا کہ ہاں میں نے مرزاقادیانی کو نبی کہا ہے اور مرزاقادیانی نے بھی دعویٰ نبوت کا کیا ہے۔ مگر اس میں کوئی خرابی نہیں۔ کیونکہ