احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
دیاجائے گا۔ مگر خوش قسمتی سے رنگون میں جمعیت العلماء قائم ہے اور کئی مدارس اسلامیہ ہیں۔ جن کی وجہ سے علمائے کرام کی ایک جماعت رنگون میں مقیم ہے۔ جمعیت علماء کو جب خواجہ صاحب کی تشریف آوری کی خبر ملی تو ان حضرات کو محض بوجہ حمیت دینی اس کا خیال پیدا ہوا اور وہ خدا کا نام لے کر اس بات کے لئے مستعد ہوئے کہ خواجہ صاحب کو مرزائیت کی اشاعت میں کامیابی نہ ہونے پائے۔ چندہ چاہے ایک لاکھ کی جگہ دو لاکھ لے جائیں۔ اس کی کچھ پرواہ نہیں۔ چنانچہ خواجہ صاحب کے تشریف لاتے ہی کئی اشتہارات جن میں مرزا کے حالات اور مرزائیت کی حقیقت پورے طور پر ظاہر کی گئی تھی۔ معززین شہر اور جمعیت العلماء کی طرف سے تمام شہر میں تقسیم اور چسپاں کئے گئے۔ حضرت مولانا عبدالشکور صاحب کی رنگون تشریف آوری ان اشتہارات سے فی الجملہ واقفیت ’’مرزائی مذہب‘‘ سے مسلمانان رنگون کو حاصل ہوچکی تھی۔ مگر اس کے بعد جمعیت العلماء نے یہ رائے طے کی کہ عالی جناب (امام اہل سنت) مولانا عبدالشکور صاحب فاروقی مدظلہ مدیر ’’النجم‘‘ لکھنؤ کو رنگون آنے کی تکلیف دی جائے تاکہ اس فتنہ کا پورے طور پر قلع وقمع ہو جائے۔ چنانچہ ایک تار آپ کی خدمت میں بھیجا گیا اور آپ نے بمقتضائے حمیت دینی اس طویل سفر کو گوارا فرمایا۔ ۷؍محرم الحرام ۱۳۳۸ھ (بمطابق اگست ۱۹۲۰ئ) کو آپ رونق افروز رنگون ہوئے اور آپ نے سعی بلیغ، اس فتنہ کے قلع وقمع میں مبذول فرمائی۔ حق تعالیٰ نے آپ کو سعی جمیل کو مشکور کیا اور نتیجہ حسب مراد نکلا۔ جو جو کوششیں جناب ممدوح نے کیں ان سب کا علی التفصیل ذکر کرنا تو بہت طویل چاہتا ہے۔ لہٰذا جو بڑی بڑی باتیں ہیں اور جن کا ذکر کرنا مسلمانوں کے لئے مفید ہے۔ حوالہ قلم کی جاتی ہے اور ان کو تین عنوان پر تقسیم کیا جاتا ہے۔ اوّل… خواجہ صاحب کو آپ نے جو تحریرات بھیجیں مع جواب وجواب الجواب۔ دوم… جو اشتہارات آپ نے شائع کرائے یا خواجہ کمال الدین کی طرف سے شائع ہوئے۔ سوم… جو مواعظ آپ نے بیان فرمائے۔ سلسلۂ تحریرات جناب ممدوح نے تشریف لاتے ہی ایک تحریر خواجہ صاحب کو لکھی جو جمعیت العلماء کی طرف سے خواجہ صاحب کو بھیجی گئی۔ وھو ہذا!