احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
ہے اور دوسرے کا نام فرضی ہے۔ تعجب ہے کہ جب آپ علماء کے سامنے نہیں آنا چاہتے اور نزاعی فرقی سے دور رہنا چاہتے ہیں تو اشتہار بازی اور وہ بھی درپردہ کیوں ہے؟ کاش یہ اشتہار اپنے نام سے دیا ہوتا تو اس کا جواب بھی ہم اسی کے ساتھ شامل کر دیتے۔ فقط غلام حسین ابراہیم مانجوا! اس کے بعد خواجہ کمال الدین صاحب نے جلدی سے ایک جلسہ اپنے میزبان سرجمال صاحب کی صدارت میں منعقد کردیا اور مسلمانوں میں مشہور کیا کہ میں باگلے صاحب کے لاینحل اعتراضات کا جواب دوںگا۔ یہ خبر جمعیت العلماء میں بھی پہنچ گئی اور اسی وقت باگلے صاحب کا جواب جو (اما م اہل سنت) عالی جناب مولانا محمد عبدالشکور صاحب نے قلم برداشتہ لکھ دیا تھا۔ اسے جلسہ میں بھیج دیاگیا اور خواجہ صاحب کو ایک خط پھر اس کے ساتھ بھیج دیا گیا اور صدر جلسہ سے اجازت مانگی گئی کہ یہ خط اور باگلے صاحب کا جواب جلسہ عام میں پڑھ کر سنادیا جائے۔ مگر خواجہ صاحب نے بڑی چالاکی سے صدر صاحب کو اجازت دینے سے روکا۔ خود خواجہ صاحب نے البتہ اس تحریر کو پڑھ لیا اور اس سے فائدہ اٹھایا۔ اپنی تقریر میں اکثر حصہ ہمارے جواب کا بیان کر کے اپنا نام کیا۔ لیکن ہمارے قاصدوں نے ایک کاپی جلسہ کے دروازے پر آویزاں کردی تھی۔ جس سے تمام حقیقت کھل گئی۔ وہو ہذا! جناب خواجہ کمال الدین صاحب کی خدمت میں ’’بعد ماھو المسنون‘‘ عرض ہے کہ یہ تو آپ نے پہلے تسلیم کر لیا ہے کہ مرزاغلام احمد قادیانی آپ کے پیشوا ہیں اور اب آپ نے اپنی تحریر مورخہ ۲۲؍ستمبر ۱۹۲۰ء میں تسلیم کرلیا ہے کہ مرزاقادیانی نے دعویٰ نبوت کا کیا ہے۔ اب صرف ذرا سی بات باقی ہے کہ آپ ان کے دعویٰ نبوت میں یہ تاویل کرتے ہیں کہ اس سے مجازی نبوت مراد ہے اور ہم کہتے ہیں کہ ذیل کی باتیں آپ کی تاویل کے قبول کرنے سے مانع ہیں۔ ۱… مرزاغلام احمد قادیانی نے اپنے کو حقیقی نبیوں سے افضل کہا ہے۔ ۲… مرزاقادیانی نے اپنے الہام کو حقیقی نبیوں کی وحی کا ہم رتبہ قرار دیا۔ ۳… مرزاقادیانی نے اپنی نبوت کے منکروں بلکہ شک کرنے والوں اور بیعت نہ کرنے والوں غرض کہ کل مسلمانوں کو باستثناء اپنے فرقہ کے کافر بنادیا۔ ۱؎ ۱؎ چونکہ یہ حوالہ جات اس کتاب میں جابجا خصوصاً دوسرے باب میں آچکے ہیں۔ اس لئے یہاں درج نہیں کئے گئے۔