احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
اگر میرے ایک ہاتھ میں آفتاب دوسرے میں ماہتاب رکھ دیا جائے تب بھی رک نہیں سکتا ہوں۔ (البدایہ النہایہ ج۳ ص۵۳، مطبوعہ بیروت) ۱۵…ڈپٹی عبداﷲ آتھم عیسائی کے موت کی پیشین گوئی یہ ایک بڑے معرکہ کی پیشین گوئی ہے اور اس کے جھوٹے ہونے پر مرزاقادیانی کی ذلت بھی ایسی ہوئی کہ کوئی باحیا ہوتا تو پھر منہ نہ دکھاتا۔ مرزاقادیانی سے امرتسر میں عیسائیوں سے مباحثہ ہوا۔ اس کے بعد ۵؍جون ۱۸۹۳ء کو آپ نے اپنے حریف مسٹر عبداﷲ آتھم کے متعلق یہ پیشین گوئی کی۔ جنگ مقدس میں لکھتے ہیں: ’’آج رات جو مجھ پر کھلا ہے وہ یہ ہے کہ جب میں نے بہت تضرع اور ابتہال سے جناب الٰہی میں دعاء کی کہ تو اس امر میں فیصلہ کر اور ہم عاجز بندے ہیں تیرے فیصلہ کے سوا کچھ نہیں کرسکتے تو اس نے مجھے یہ نشان بشارت کے طور پر دیا ہے کہ اس بحث میں دونوں فریقوں میں سے جو فریق عمداً جھوٹ کو اختیار کر رہا ہے اور سچے خدا کو چھوڑ رہا ہے اور عاجز انسان کو خدا بنارہا ہے۔ وہ انہی دنوں مباحثہ کے لحاظ سے یعنی فی دن ایک مہینہ لے کر یعنی ۱۵ماہ تک ہاویہ میں گرایا جاوے گا اور اس کو سخت ذلت پہنچے گی۔ بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے اور جو شخص سچ پر ہے اور سچے خدا کو مانتا ہے اس کی اس سے عزت ظاہر ہوگی اور اس وقت جب یہ پیشین گوئی ظہور میں آوے گی بعض اندھے سوجاکھے کئے جائیںگے اور بعض لنگڑے چلنے لگیںگے اور بعض بہرے سننے لگیںگے۔‘‘ (جنگ مقدس ص۲۱۰، خزائن ج۶ ص۲۹۲) پھر مرزاقادیانی لکھتے ہیں: ’’میں حیران تھا کہ اس بحث میں کیوں مجھے آنے کا اتفاق پڑا۔ معمولی بحثیں تو اور لوگ بھی کرتے ہیں۔ اب یہ حقیقت کھلی کہ اس نشان کے لئے تھا میں اس وقت یہ اقرار کرتا ہوں کہ اگر یہ پیشین گوئی جھوٹی نکلے یعنی وہ فریق جو خداتعالیٰ کے نزدیک جھوٹ پر ہے وہ پندرہ ماہ کے عرصہ میں آج کی تاریخ سے بسزائے موت ہاویہ میں نہ پڑے تو میں ہر ایک سزا اٹھانے کے لئے تیار ہوں۔ مجھ کو ذلیل کیا جاوے، روسیاء کیا جاوے، میرے گلے میں رسا ڈال دیا جاوے۔ مجھ کو پھانسی دیا جاوے۔ ہر ایک بات کے لئے تیار ہوں اور میں اﷲ جل شانہ کی قسم کھاکر کہتا ہوں کہ وہ ضرور ایسا ہی کرے گا۔ ضرور کرے گا۔ زمین آسمان ٹل جائیں پر اس کی باتیں نہ ٹلیںگی۔‘‘ (جنگ مقدس ص۲۱۰، خزائن ج۶ ص۲۹۳) یہ عبارت مرزاقادیانی کی انہیں کے الفاظ میں ہے۔ مرزاقادیانی جانتے تھے کہ اس پیشین گوئی اور اس کے پرزور الفاظ سے آتھم ڈر جائے گا اور ڈر کر مرزاقادیانی کا مرید ہوجائے گا۔ مگر افسوس ایسا نہ ہوا۔ پندرہ مہینہ گذر گئے اور آتھم بدستور صحیح وسالم موجود رہا۔ نہ وہ مرا نہ ہاویہ میں گرا۔