احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
اب ہم مرزاقادیانی کا آخری نوٹس ان کے مریدوں کو سنا کر ایک سوال کرتے ہیں۔ مرزاقادیانی فرماتے ہیں۔ ’’چاہئے تھا کہ ہمارے نادان مخالف اس پیش گوئی کے انجام کے منتظر رہتے اور پہلے ہی سے اپنی بدگوہری ظاہر نہ کرتے۔ بھلا جس وقت یہ سب باتیں پوری ہو جائیںگی تو کیا اس دن یہ احمق مخالف جیتے ہی رہیںگے اور کیا اس دن یہ تمام لڑنے والے سچائی کی تلوار سے ٹکڑے ٹکڑے نہیں ہوجائیںگے۔ ان بیوقوفوں کو کوئی بھاگنے کی جگہ نہ رہے گی اور نہایت صفائی سے ناک کٹ جائے گی اور ذلت کے سیاہ داغ ان کے منحوس چہروں کو بندروں اور سورؤں کی طرح کردیںگے۔‘‘ (ضمیمہ انجام آتھم ص۵۲، خزائن ج۱۱ ص۳۳۶) احمدی دوستو! سنتے ہو مرزاقادیانی کیا فرماتے ہیں؟ آپ کا مطلب یہ ہے نہ کہ اس پیش گوئی کے خاتمہ پر ایسا ہوگا۔ واقعہ جس کے خلاف ہوگا پھر کیا ہوا؟ بس تم خود سمجھ لو۔ اگر گوئم زباں سوزد آہ! مرزاقادیانی اس حسرت کو دل ہی میں لے گئے۔ بلکہ آج ان کی قبر سے گویا آواز آرہی ہے۔ جو آرزو ہے اس کا نتیجہ ہے انفعال۔ اب آرزو یہ ہے کہ کبھی آرزو نہ ہو۔ تیسری پیش گوئی ڈاکٹر عبدالحکیم کے متعلق جناب مرزاقادیانی فرماتے ہیں: ’’ہاں آخری دشمن ایک اور پیدا ہوا ہے جس کا نام عبدالحکیم خان ہے اور وہ ڈاکٹر ہے اور ریاست پٹیالہ کا رہنے والا ہے۔ جس کا دعویٰ ہے کہ میں اس کی زندگی میں ہی ۴؍اگست ۱۹۰۸ء تک ہلاک ہو جاؤںگا اور یہ اس کی سچائی کے لئے ایک نشان ہوگا۔ یہ شخص الہام کا دعویٰ کرتا ہے اور مجھے دجال اور کافر اور کذاب قرار دیتا ہے۔‘‘ (چشمہ معرفت ص۳۲۱، خزائن ج۲۳ ص۳۳۷) چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ مرزاقادیانی عبدالحکیم کی پیش گوئی کے مطابق ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء کے دن دارفانی سے کوچ کر گئے۔ عبدالحکیم کی پیشین گوئی کے مقابل مرزاقادیانی نے بھی عبدالحکیم کی ہلاکت کی پیش گوئی کی تھی۔ لیکن وہ صاف طور پر جھوٹی نکلی۔ پیش گوئی کی عبارت سنئے۔ مرزاقادیانی فرماتے ہیں۔ ’’مگر خدا نے اس کی پیش گوئی کے مقابل پر مجھے خبر دی کہ وہ خود عذاب میں مبتلا کیا جائے اور خدا اس کو ہلاک کرے گا اور میں اس کے شر سے محفوظ رہوںگا۔ سو یہ وہ مقدمہ ہے جس کا فیصلہ خدا کے ہاتھ میں ہے۔ بلاشبہ یہ بات سچ ہے کہ جو شخص خداتعالیٰ کی نظر میں صادق ہے خدا اس کی مدد کرے گا۔‘‘ (چشمہ معرفت ص۲۲۲ حصہ دوم، خزائن ج۲۳ ص۳۳۷)