احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
کمال الدین کو بھی بلایا جائے اور سب جماعت کے روبرو ان کی بحث ہونی چاہئے کہ جس سے عوام کا وہم دور ہو جائے اور یہ سب باقاعدہ تقریریں خلاصہ ہونا چاہئے اور اپنی قوم کا بھی اتفاق جیسا کہ اس کے قبل تھا ہم کو امید ہے ویسا ہو جائے گا اور یہ سب بلا دور ہو جائے گی۔ اس لئے ہماری اس عرض کو آپ ضرور قبول فرماویںگے اور اس کارخیر میں ضرور ہماری امداد کریںگے اور اس کام کو اچھی طور سے انجام دیںگے۔ آپ مسلمان قوم کے بڑے لیڈر ہیں تو لیڈرانہ فرض ضرور بجالاویںگے۔ ایسی ہم کو امید ہے اور جو وقت آپ مناسب سمجھو وہ ہم کو اطلاع دیں۔ ہم ضروراس کا انتظام کریںگے اور آپ کی بھی ہم اس کام میں مدد کریںگے۔ یوسف ہاشم ودبلی پریسیڈینٹ جلسہ اس تحریر پر علاوہ پریسیڈنٹ کے پینتیس معزز تاجران رنگون کے دستخط تھے۔ ان تمام پے در پے کوششوں کے بعد خواجہ کمال الدین صاحب کی مہر سکوت ٹوٹی اور بہزار مشکل حسب ذیل تحریر آئی۔ نقل خط خواجہ کمال الدین صاحب مرزائی بسم اﷲ الرحمن الرحیم! مکرمی جناب محمد حاجی احمد باوا موسیٰ جی قاسم۔ ابراہیم ماجوا، ابراہیم اسمعیل پٹیل احمد اسمعیل واید۔ سلیمان موسیٰ ملا۔ غلام حسین ابراہیم ماجوا۔ موسیٰ محمد وغیرہ صاحبان۔ السلام علیکم ورحمتہ اﷲ وبرکاتہ! آپ کا عنایت نامہ مجھے ملا۔ میرے نزدیک آپ کا مطالبہ یہاں تک تو صحیح ہے کہ آپ کو میرے معتقدات کے متعلق صاف طور پر علم ہوجائے کہ وہ کیا ہیں۔ سو وہ دنیا سے چھپے ہوئے نہیں ہیں۔ نہ میں نے انہیں کبھی پوشیدہ رکھا۔ یہاں آکر بھی قریباً ہر ایک لیکچر میں ہزارہا آدمیوں کے سامنے بیان کیا۔ اس کے علاوہ ان آٹھ سوالوں کا جواب بھی میں نے آپ میں سے بعض کو پرائیویٹ طور پر اور پھر عام پبلک میں بصدارت جناب سرجمال صاحب جوبلی ہال میں دے دیا۔ ایک خدا ترس مسلمان کا فرض تھا کہ وہ اس کے بعد خاموش ہوجاتا اور میرے اسلام پر شبہ نہ لاتا۔ ہاں ممکن ہے کہ آپ میں سے بعض کو میرے معتقدات کا علم نہ ہو۔ اس لئے میں انہیں یہاں لکھ دیتا ہوں۔ ’’اشہد ان لا الہ الا اﷲ واشہد ان محمداً عبدہ ورسولہ آمنت باﷲ وملائکتہ وکتبہ ورسولہ والیوم الآخر والقدر خیرہ وشرہ من اﷲ تعالیٰ والبعث بعد الموت‘‘