احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
مصنف ایچ جی ویل نے ایک چٹھی لکھی تھی کہ تم آنحضرتﷺ کو کیوں آخری نبی مانتے ہو۔ اس کے جواب میں جو میں نے لکھا اس کو رسالہ جنوری ۱۹۱۷ء میں اور پھر مئی ۱۹۱۹ء میں درج کردیا۔ وہ رسالہ میں بھیجتا ہوں۔ اب آپ خود سوچیں جو شخص لندن میں بیٹھ کر لندن کے مشہورومعروف آدمیوں کو یہ لکھتا ہے کہ حضرت محمدﷺ خاتم النبیین ہیں وہ کیسے اس کے الٹ کر سکتا ہے۔ ایسا ہی ۱۹۱۷ء میں میں نے آنحضرتﷺ کے اخلاق پر ایک کتاب لکھی ہے۔ اس میں بھی میں نے یہی لکھا ہے وہ بھی بھیجتا ہوں۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ اس جگہ بعض اشخاص کس قسم کے ہیں۔ اسلامی مشاہیر میں سے ہندوستان میں سے کون ہے جس نے میرے مشن سے محبت اور اس کی مدد نہیں کی۔ مولانا ابوالکلام نے کلکتہ میں میری حمایت میں جلسہ کیا۔ الہلال میں میرے کام کی تعریف میں مضمون لکھے۔ مولانا عبدالباری صاحب فرنگی محلی نے لکھنؤ میں میری خاطر گھر گھر چندہ مانگا۔ مولوی ثناء اﷲ صاحب امرتسری نے اپنے اخبار میں کئی دفعہ لکھا کہ: ’’جو کام ہمارا تھا وہ اس نے کیا (یعنی میں نے) اور یہ خدا کا فضل ہے۔‘‘ آج کل مسلمانوں کے مذہبی لیڈر مکرمی مولانا محمد علی صاحب وشوکت علی صاحبان ہیںَ ہمارے انگریزی ترجمہ قرآن مجید کے نکلنے پر وہ ایک خط لکھتے ہیں۔ ترجمہ کی ازحد تعریف کرتے ہیں اور اس میں لکھتے ہیں کہ خواجہ کمال الدین بہادروں کی طرح مرد میدان بن کر کام کرتا ہے۔ میں بھی (یعنی محمد علی صاحب) یہی کام کرنا چاہتا ہوں۔ وہ سابقوں الاولون میں سے ہے۔ میرے لئے عزت وفخر کا مقام ہوگا اگر میں قدم بقدم ان کی پیروی کروں۔ پھر اخیر خط میں لکھتے ہیں کہ اگر ان کامکتوب الیہ (مرزایعقوب صاحب) مجھے خط لکھے تو یہ بھی لکھے کہ محمد علی میری ریش چومنے کی خواہش کرتا ہے۔ جو اجمل خان صاحب نے لکھا ہے اس کا تار آپ کو مل چکا ہے۔ خواجہ کمال الدین مورخہ ۲۸؍ستمبر ۱۹۲۰ء اس کے بعد پے درپے حسب ذیل دو اشتہار ہماری طرف سے شائع ہوئے۔ سلسلۂ اشتہارات باسمہ تعالیٰ حامداً ومصلیاً مرزاغلام احمد قادیانی کے مدعی نبوت ہونے کا ثبوت اور اس کے کفریات خواجہ کمال الدین اور رنگون کی لاہوری پارٹی مرزائی اور عبدالقادر مرزائی محمد امین