احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
بالکل ناآشنا ہیں۔ مگر اپنے کو ہمہ دان سمجھ کر ہر چیز میں دخیل بنتے ہیں۔ وہ غلمدیوں کا نظام دیکھ کر یورپ وغیرہ میں ان کے خود ساختہ تبلیغی کارنامے سن کر ان کے مداح بن جاتے ہیں۔ حالانکہ یہ بڑا دھوکا ہے۔ زہر جب دیا جاتا ہے تو شیرینی میں ملا کر دیا جاتا ہے۔ غلمدیوں کے تبلیغی کارناموں اور نام نہاد اسلامی خدمتوں کو اگر بہ نظر تحقیق دیکھا جائے تو اوّل تو ایک پروپیگنڈے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتیں۔ پھر اگر وہ اسلام کی تبلیغ کرتے بھی ہیں تو اس اسلام کی جو مرزاغلام احمد قادیانی نے تعلیم دیا، نہ اس اسلام کی جس کے معلم حضرت محمد رسول اﷲﷺ ہیں۔ رہا نظام جماعت اگر پسند ہے تو خود تم کیوں اپنا نظام درست نہیں کرتے۔ پھر ہندوؤں کا نظام ان سے بدرجہا فائق ہے۔ ان کی مدح سرائی کیوں نہیں کرتے۔ ہدایت ششم جس مقام پر غلمدیت کا کچھ بھی چرچا ہو وہاں کے مسلمانوں پر فرض ہے کہ جو علمائے اسلام اس بحث میں مہارت رکھتے ہیں ان کے وعظ کرائیں یا علمائے اسلام کی جو عمدہ کتابیں غلمدیوں کے رد میں ہیں۔ ان کی اشاعت کریں۔ جیسے خانقاہ رحمانی مونگیر (صوبہ بہار) کی کتابیں یا دارالعلوم دیوبند کی کتابیں۔ وغیر ذلک! فصل دوم … مقدمہ بہاولپور کے واقعات یہ مقدمہ تقریباً چھ سال سے چل رہا ہے۔ ابتداء یوں ہوئی کہ بہاولپور کے مضافات میں ایک مولوی صاحب رہتے ہیں۔ جن کا نام الٰہی بخش ہے۔ انہوں نے اپنی دختر کا نکاح ایک شخص کے ساتھ کیا۔ ابھی رخصتی کی نوبت نہ آئی تھی کہ وہ شخص مرتد ہوکر غلمدی بن گیا۔ مولوی الٰہی بخش صاحب نے عدالت میں دعویٰ فسخ نکاح کا دائر کیا۔ بعض روشن دماغ افسران ریاست نے برٹش گورنمنٹ کے قانون کے مطابق اس دعویٰ کو خارج کردیا۔ یعنی نکاح کو ناقابل فسخ قرار دیا۔ مولوی الٰہی بخش صاحب نے ریاست کی عدالت بالا میں اپیل کی۔ وہاں بھی شنوائی نہ ہوئی۔ بالآخر دربار معلی میں جو ریاست کی آخری عدالت اور خاص فرمانروائے بہاولپور دام بالاقبال والسرور کی کچہری ہے۔ فریاد کی گئی اور مسلمانوں نے صدائے احتجاج بلند کی کہ یہ اسلامی ریاست ہے اور ہمیشہ سے یہ بات طے شدہ چلی آرہی ہے کہ نکاح وطلاق وغیرہ کے مقدمات کا شرع مقدس کے مطابق فیصلہ کیا جاتا ہے۔ اب یہ نئی بات کیوں ہورہی ہے۔